سیاست کی بلندی اور پستی

934

سیاست کی بلندی اور پستی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ سیات کبھی انبیا و مرسلین کا ورثہ تھی مگر اب نیتن یاہو، نریندر مودی، نواز شریف اور آصف زرداری کا کاروبار ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا دائودؑ اور سیدنا سلیمانؑ کو پیغمبری کے ساتھ ساتھ حکمرانی بھی عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف کو ریاست کے بلند منصب تک پہنچایا۔ رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ میں بھی پیغمبری اور حکمرانی یکجا ہوگئی۔ لیکن آپؐ کی سیاست کا یہ عالم تھا کہ آپؐ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میں ایک دن بھوکا رہوں تا کہ صبر کروں اور دوسرے دن پیٹ بھر کر کھائوں تا کہ شکر ادا کروں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی زندگی صبر اور شکر کے درمیان ہے۔ رسول اکرمؐ ریاست مدینہ کے والی تھے مگر مکہ فتح ہوا تو آپؐ کی شانِ کریمی کا اظہار ہوا۔ مکہ وہ جگہ تھی جس کے باشندوں نے رسول اکرمؐ کو ہزاروں اذیتیں دی تھیں، آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کیا تھا۔ چناں چہ رسول اکرمؐ نے مکہ فتح کیا تو آپؐ ہر اعتبار سے اس پوزیشن پر تھے کہ اپنے اور اپنے اصحاب کے ساتھ ہونے والی ایک ایک زیادتی کا بدلہ لیتے۔ مگر آپؐ کی سیاست یہ تھی کہ آپؐ نے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا اور خاتم النبیین تھے مگر آپؐ اور آپؐ کے اہل خانہ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ سیدہ عائشہؓ کے بقول فتح خیبر تک ہمارا یہ حال تھا کہ ہم کھجور کھاتے تھے اور پانی پیتے تھے۔
نبی اکرمؐ کی سیرت کا اثر صحابہ پر بھی پڑا۔ سیدنا عمرؓ فاروق کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرایا تھا مگر ان کی ذاتی زندگی دنیا سے بے نیازی کی منہ بولتی تصویر تھی۔ مصر فتح ہوا تو مصر کے گورنر نے سیدنا عمرؓ کو پیغام بھجوایا کہ اہل مصر شہر کی چابی آپ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ سیدنا عمرؓ نے مصر کے لیے رنج سفر کھینچا۔ گورنر نے مصر کی سرحد پر آپ کا استقبال کیا، گورنر نے دیکھا کہ سیدنا عمرؓ کا لباس گرد آلود اور حد درجہ سادہ ہے۔ گورنر نے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ اہل مصر نفاست پسند ہیں۔ اگر آپ نیا لباس زیب تن کرلیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ یہ مسئلہ بہت عرصے کے بعد ایک بار پھر سیدنا عمرؓ کے سامنے آیا۔ سیدہ عائشہؓ نے ایک دن سیدنا عمرؓ کو ملاقات کے لیے بلایا۔ سیدنا عمرؓ حاضر ہوئے تو سیدہ عائشہؓ نے کہا کہ ہم نے فتح خیبر تک بہت عسرت اور تنگ دستی دیکھی ہے مگر اب ہمارے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ دوسری ریاستوں کے اعلیٰ حکام اور سفیر آپ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں چنانچہ اگر آپ بہتر لباس پہن لیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ سیدہ عائشہؓ سے وہ بات نہیں کہہ سکتے تھے جو انہوں نے مصر کے گورنر سے کہی تھی۔ مگر ان کے پاس سیدہ عائشہؓ کے لیے بھی ایک مسکت جواب موجود تھا۔ انہوں نے فرمایا میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور صدیق اکبرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ سن کر سیدہ عائشہؓ خاموش ہوگئیں۔ سیرت عمرؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دن آپ صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ نے صحابہ سے کہا اگر تم مجھ میں کوئی نقص دیکھتے ہو تو اس کی نشاندہی کرو۔ یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے آپ میں دو برائیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے پاس دو لباس ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ کے دسترخوان پر دو سالن ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سے سیدنا عمرؓ نے ایک لباس اور ایک سالن پر قناعت کو وظیفہ حیات بنالیا۔ ایک صحابی رسول کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک دن سیدنا عمرؓ کے لباس پر لگے ہوئے پیوندوں کو گنا تو ان کے لباس میں 17 پیوند لگے تھے۔ یہ وہ عمرؓ تھے جن کے بارے میں گاندھی نے کہا ہے کہ اگر اسلام کو ایک اور عمر فراہم ہوجاتا تو پوری دنیا مسلمان ہوتی۔
عیسائی دنیا بھی گیارہویں صدی میں ایک مذہبی دنیا تھی مگر صلیبی فوجوں نے بیت المقدس پر یلغار کی تو اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور مغربی مورخین کے مطابق اس خون میں گھوڑوں کو چلانا بھی دشوار ہوگیا۔ مگر جب مسلمان صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کیا تو ان کی سیاست پر فتح مکہ کی روایت کا گہرا اثر دیکھنے میں آیا۔ صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس فتح کیا اس وقت بیت المقدس میں ایک لاکھ عیسائی تھے۔ یہ مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ لینے کا بہترین موقع تھا مگر صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا اور کہا کہ عیسائی معمولی سی رقم ادا کرکے اپنے سارے سازوں سامان کے ساتھ بیت المقدس چھوڑ سکتے ہیں۔ بعض عیسائی اتنے غریب تھے کہ وہ سلطان کو معمولی رقم بھی ادا نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ صلاح الدین ایوبی اور ان کے عزیزوں نے ایسے عیسائیوں کی رقم اپنی جیب خاص سے ادا کی۔
بعد کے زمانوں میں بھی مسلمانوں کی سیاست مذہب کے تابع رہی ہے۔ امام غزالی نے احیا العلوم میں لکھا ہے کہ سیاست دین کے تابع شعبہ ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں سیاست کو دین کی فرع قرار دیا ہے۔ مجدد الف ثانی نے جہانگیر کے زمانے میں سیاست کو دین کے تابع کرنے کے لیے جہانگیر کے خلاف آواز اٹھائی اور جہانگیر سے اپنے مطالبات منوا کر چھوڑے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
بیسویں صدی کے مجدد مولانا مودودیؒ کی پوری زندگی ہی سیاست کو دین کے تابع کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کے تحت جدوجہد کرتے ہوئے قیام پاکستان کو ممکن کر دکھایا۔ لیاقت علی خان قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ ان کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ وہ ہندوستان میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین چھوڑ کر آئے تھے مگر انہوں نے پاکستان آنے کے بعد ایک انچ زمین کے لیے بھی دعویٰ دائر نہیں کیا۔ لیاقت علی خان جب تک جیے قناعت کی زندگی بسر کی۔ شہادت کے بعد ان کا لباس دیکھا گیا تو وہ پھٹا ہوا بنیان پہنے ہوئے تھے۔
پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا سے پہلے تک پاکستانی سیاست ایک حد تک ’’نظریاتی‘‘ تھی۔ معاشرے کا ایک طبقہ تھا جو کمیونزم کے ساتھ تھا۔ کمیونزم ایک مذہب دشمن نظریہ تھا مگر تھا بہرحال وہ بھی ایک نظریہ ہی تھا۔ دوسری طرف اس نظریے کی مزاحمت کرنے والے مولانا مودودیؒ تھے۔ مولانا اسلام کو صرف ایک مذہب نہیں سمجھتے تھے وہ اسے ایک مکمل ضابطۂ حیات یا ایک جامع ترین نظریہ سمجھتے تھے۔ چناں چہ مولانا کی فکر کے زیر اثر جماعت اسلامی نے ملک کی سیاست اور اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں نظریاتی جدوجہد کا علم اٹھایا ہوا تھا۔ بھٹو صاحب سیاست میں بائیں بازو کے ترجمان تھے۔ ان کے مزاج میں فسطائیت تھی۔ وہ شراب بھی پیتے تھے۔ مگر ان کے حریف کبھی ان پر مالی کرپشن کا الزام نہ لگا سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو کے لیے سیاست مال کمانے کا ذریعہ نہیں تھی۔ لیکن بھٹو کے بعد جنرل ضیا الحق نے جو معاشرہ پیدا کیا اس نے نظریاتی سیاست کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے بعد ملک میں لسانی سیاست پیدا ہوئی۔ صوبائی عصبیت کی سیاست نے زور پکڑا، فرقوں اور مسلکوں کی سیاست نے رنگ جمایا۔ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے نواز شریف کو خلق کیا جنہوں نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔ جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی اور انہوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر عصبیت کو ایک طوفان بنا دیا۔ میاں نواز شریف نے صرف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ نہیں لگایا انہوں نے کرپشن کا قطب مینار بھی تخلیق کیا۔ نواز شریف کے دوست اور ملک کے ممتاز صحافی ضیا شاہد نے نواز شریف پر لکھی گئی کتاب میں نواز شریف کے والد کا یہ بیان کوٹ کیا ہے کہ میں نے نواز شریف کی سیاست پر تین ارب لگائے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ نواز شریف اب مجھے کم از کم 9 ارب روپے کما کر دے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے والد کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے 9 ارب کیا سیاست سے 900 ارب سے زیادہ کما کر دکھائے۔ آصف زرداری بھٹو ازم کے علمبردار ہیں مگر ان کی پوری شخصیت پر جگہ جگہ کرپشن کے کبھی نہ مٹنے والے داغ لگے ہوئے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اسلام کے علمبردار ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں صرف ’’دیوبندیت‘‘ کے ووٹ ملتے ہیں۔ تحریک لبیک کا عشق رسول تسلیم مگر اسے صرف ’’بریلویت‘‘ کے ووٹ ملتے ہیں۔
دیکھاجائے تو عالمی سطح پر بھی سیاست بدترین پستی میں گری ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ انسانی حقوق کے چمپئن بنے پھرتے ہیں مگر اسرائیل غزہ میں صرف تین ماہ میں 24 ہزار فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ شہید ہونے والوں میں 10 ہزار بچے، 7 ہزار خواتین شامل ہیں۔ اسرائیل اب تک 60 ہزار فلسطینیوں کو زخمی کرچکا ہے۔ 8 ہزار سے زیادہ فلسطینی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں مگر امریکا دوبار سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو کرچکا ہے۔ یورپی ممالک کے سیاسی رہنما اسرائیل کے خلاف صرف بیانات دے رہے ہیں۔ دنیا کی کوئی سیاسی طاقت آگے بڑھ کر اسرائیل کا ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کے سیاسی رہنمائوں کا حال یورپی ممالک کے سیاسی رہنمائوں سے زیادہ پتلا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یہاں تک کہ ترکی اور ایران بھی غزہ کے حوالے سے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ اس صورت حال نے پوری دنیا کی سیاست کو ’’گٹر سیاست‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔