پاکستان ایران کشیدگی

645

مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والی جارحیت اور ظلم کے خلاف اہل پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ اضطراب، بے چینی کا شکار ہو کر ہلکان ہورہی ہے تو ایسے حالات میں ایران کی جانب سے پاکستان کے علاقے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میزائل حملہ جس کے نتیجے میں دو معصوم بچوں کی ہلاکت کی اطلاع موصول ہوئی۔ دوسری جانب اگلے ہی دن پاکستان نے سرجیکل اسٹرائیک آپریشن مرگ بر سرمچار میں 9پاکستانی دہشت گرد ہلاک کر دیے۔ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں پاکستانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ انٹیلی جنس پر مبنی کارروائی کو آپریشن مرگ برسرمچار کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران کسی شہری یا ایرانی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا کو لٹیرل نقصان سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی اور درست حملوں کے لیے ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹیڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ پاک فوج کے مطابق یہ ٹھکانے پاکستان میں حالیہ حملوں میں ملوث دہشت گردوںکے زیر استعمال تھے اور ان کے بارے میں متعدد مرتبہ حکومت ایران سے بات چیت بھی کی گئی تھی لیکن ایران کی جانب سے پاکستان کے علاقے میں حملہ کر کے پاکستان کے صبرو تحمل کا امتحان لیا گیا اور اسے مشتعل بھی کیا گیا۔ پاک فوج کا کہنا ہے کہ عوام کی حمایت سے پاکستان کے تمام دشمنوں کو شکست دینے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کی کارروائیوں کے خلاف پاکستانی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

جس وقت غزہ کے مظلوم مسلمان مدد کے لیے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں اس وقت دو مسلم ممالک کا آپس میں لڑنا ایک المیے سے کم نہیں ہے جو ایک عجیب سانحہ ہے اور کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ ایران نے کیسے دو محازوں پر جنگ چھڑ نے کی بے وقوفی کر لی۔ امریکا نے ایرانی جرنیل مارڈالا لیکن ایران خاموش رہا اور لفظی جنگ لڑتا رہا۔ زور چلا تو پاکستان پر اور وہ بھی اس وقت جب کہ اس کی ساری توجہ بحر احمر پر ہے۔ ایسے حالات میں اپنے برادر اسلامی ملک پر ایران کی جانب حملہ غیر دانشمندانہ اقدام ہے اور ایران نے اپنے اچھے دوست اور ہمسائے کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً ایک ہزار کلو میٹر طویل مشترکہ سرحد سیکورٹی اعتبار سے سے اب غیر مستحکم ہوگئی ہے۔ دوسری جانب سے غزہ میں تین ماہ سے جاری جنگ اور درندگی سے لگ رہا ہے کہ دنیا کو ایک بڑی جنگ کی جانب دکھیلا جا رہا ہے۔ بحرۂ احمر میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اور امریکا نے چوتھی بار حوثی ملیشیا پر حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میںصورتحال روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حملے اور جواب میں پاکستان کے حملے کے بعد دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی آگئی ہے۔ ایران کی جانب سے بلوچستان کے علاقے پنج گور پر حملے کو حکومت پاکستان نے اپنے فضائی حدودکی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

پاکستان اور ایران ایک برادر ملک ہیں اور ان دونوں میں مثالی دوستی رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور پاکستان بھی وہ پہلا ملک ہے کہ 1979 انقلاب ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ 1990 میں جب افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی اس وقت پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کمی آئی اور دونوں ملکوں نے اپنے راستے جدا کر لیے۔ افغان جہاد میں ایران پاکستان دونوں سویت یونین کے خلا ف تھے تاہم ایران نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جو کہ زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پاکستان نے مجاہدین کا ساتھ دیا تھا۔ ایران پاکستان میں تعلقات کی خرابی کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت نے اٹھایا اور بھارتی انٹیلی جنس را ایران میں متحرک ہوئی اور پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی کا نیٹ ورک وہاں سے ہی چلایا جاتا تھا۔ بھارت سے باہر را کا سب سے بڑا مرکز ایرانی شہر چاہ بہار میں قائم ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جو بھارتی نیول کا حاضر سروس آفیسر تھا اور حسین مبارک پٹیل کے نام سے یہاں تعینات تھا اور وہ ایران بارڈر کے ذریعے بلوچستان میں داخل ہوا تھا اور اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھا کہ پاکستانی اداروں نے اسے گرفتا رکیا۔ بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں ملوث دہشت گردوں نے ایرانی سرحدی علاقوں کے قریب اپنی پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں جس پر حکومت پاکستان نے ایرنی حکومت کو ثبوت کے ساتھ آگاہ بھی کیا لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ الٹا ایران کی جانب سے پاکستان کی حدود میں حملہ کیا گیا۔ اس حملے سے چند روز قبل بھارت کے وزیر خارجہ ایران کا دورہ بھی کر کے گئے تھے۔ ظاہری طور پر ایران کا پاکستان، عراق اور شام پر حملے کرنے کا مقصد سب کی توجہ غزہ سے ہٹا کر اس مسئلے پر لگانا ہے۔

ایران کا پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت کھلی جارحیت ہے اور پاکستان کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایران کا پاکستان کے ساتھ 2013 میں معاہدہ ہوا تھا اس معاہدے میں اس طرح کے معاملات ڈائیلاگ کے ذریعے طے کرنے کا عہد کیا گیا تھا لیکن خود ایران نے اس معاہدہ کی پاسداری نہ کر کے اپنے دیرینہ برادر اسلامی دوست ملک کو خود سے دور کرلیا ہے بلکہ اس طرح کے انتہا پسندانہ اقدام ایران کو دنیا میں تنہا کرنے کے مترادف ہے۔ ایران کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرے پاکستان کے تحفظات کا ازلہ کرے ورنہ ایران کی جانب سے پاکستان پر کیے جانے والے حملے سے پورے خطے کے امن کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور پورا خطہ بارود کا ڈھیر بن سکتا ہے۔