واہگہ کا بورڈ تفتان پھاٹک پر؟

485

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بادل بڑھتے اور ایک ممکنہ جنگ میں ڈھلتے جا رہے تھے کہ اچانک ایران نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان پر میزائلوں کی بارش کر دی۔ ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے ٹھکانے پر کیا گیا مگر اس حملے میں دو معصوم پاکستانی بچیاںجاں بحق اور تین زخمی ہوگئیں۔ جیش العدل نام کا کوئی عسکریت پسند نہ تو اس حملے میں مارا گیا اور نہ ایران اس کا ثبوت پیش کر سکا۔ پاکستان نے اس حملے پر فوری ردعمل دکھایا اور ایران سے اپنا سفیر واپس بلاتے ہوئے ایرانی سفیر کو پاکستان نہ آنے کی ہدایت کی اور دونوں طرف سے وفود کی سطح کے دورے بھی منسوخ ہوگئے۔ دوسرے ہی روز پاک فضائیہ نے ایران کے اندر گھس کر اپنے شدت پسندوں کو نشانہ بنایا اور یوں حساب برابر ہوگیا۔ ایرانی میڈیا اور حکومت نے اس حملے کی تشہیر کرنے کے باوجود اسے پاکستان کے بجائے اپنے مطلوب دہشت گردوں پر حملہ قرار دیا جبکہ پاکستان نے بھی جواباً ایران میں پر کیے جانے والے حملے کو ’’مرگ بر سرمچاری‘‘ آپریشن کا نام دیا گویا کہ یہ پاکستان کے اپنے شہریوں اور عسکریت پسندوں پر ایران کی حدود میں کارروائی تھی۔ امریکا نے ایران کے حملوں کی مذمت کی جبکہ چین نے دونوں ملکوں سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی اس لہر کو ان دونوں غیر ملکی طاقتوں کے بیانات سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔
ایران نے پاکستان کی حدود میں حملہ اس وقت کیا جب ایران اور پاکستان کی بحریہ سمندر میں مشترکہ مشقیں کر رہی تھیں۔ پاکستان کے جوابی حملے پر عمومی طور پر پاکستان میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ حالیہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور افغانستان میں جس جنگ کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے اور اگر ایسا ہوجاتا تو یہ پاکستان کی بھارت کے علاوہ کسی دوسرے ہمسائے کے ساتھ پہلی جنگ ہوتی اور یہ ایک نئی تاریخ ہوتی۔ یہ کہانی تو شروع نہیں ہو سکی مگر ایران نے آگے بڑھ تاریخ کو ایک نئے انداز سے رقم کرنے کا فیصلہ کیا گویا کہ بھارت کے علاوہ پاکستان کی جس ملک کے ساتھ فضائی کھٹ پھٹ ہوئی وہ ایران ہے۔ ایسے میں جب خطے میں ہر طرف جنگوں کا جنگل سا اُگ رہا ہے ایران نے اچانک پاکستان پر پل پڑے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا ایران اسی طرح ٹریپ ہوا جس طرح صدام حسین کویت حملے میں دام ِ فریب میں آیا تھا؟ ایران کے میزائل حملے سے کچھ ہی لمحے پہلے بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران میں موجود تھے اور وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید بلندیوں تک لے جانے کے عہد وپیماں کر رہے تھے۔ جن میں چاہ بہار بندرگاہ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے اور فارسی زبان کو بھارت کی کلاسیکل زبانوں میں شامل کرنے جیسے معاہدات شامل تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ اس سے کچھ ہی دن پہلے امریکا کا دورہ کر چکے تھے جہاں ان کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے تفصیلی ملاقات ہو چکی تھی۔
ڈیووس میں عالمی معاشی فورم پر تقریر کرتے ہوئے انٹونی بلنکن ہندوستان میں انتہا پسندوں کے طاقت پکڑنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ہندوستان کو ایک کامیاب ملک بنتا دیکھ رہے ہیں جس میں وزیر اعظم مودی کا رول انتہائی اہم ہے۔ گویا کہ وہ بھارت میں انتہا پسندی سے متعلق سوال کو نظر انداز کرتے اور پہلو بچاتے ہوئے ہندوستان اور نریندر مودی کی تعریف کررہے تھے۔ اس خوش کن ماحول سے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر ایران پہنچے تو ان کی تہران سے روانگی کے کچھ ہی لمحوں بعد ایران نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ عین ممکن ہے کہ ایس جے شنکر امریکی قیادت کی طرف سے ایران کے لیے کوئی شاخ ِ زیتون لے کر آئے ہوں کہ حوثیوں پر حملوں کے باوجود امریکا ایران کے ساتھ کشیدگی کو ایک حد سے آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان میں ایرانی حملے میں بالاکوٹ حملے کی طرح ایک کوا اور چند درخت تو کام نہیں آئے مگر چند معصوم پاکستانی بچوں کی جانیں چلی گئیں۔ یوں ایران نے اس حملے سے خطے میں وہ نئی تاریخ رقم کرنے کا راستہ اختیار کیا جو کئی برس سے ہموار کیا جا رہا تھا اور ایران نے اس موقع پر اپنا کندھا پیش کر کے ایک حماقت کی۔ اب بھارت کے بعد پاکستان کی اس نوعیت کی کشیدگی اور جھڑپ میں ایران نامی ایک نئے کیریکٹرکا اضافہ ہوگیا۔ ایران کی طرف سے اس حملے کا جواز اس لحاظ سے بھی نہیں بنتا تھا کہ دونوں ملکوں کی بحریہ مشترکہ مشقیں بھی کر رہی تھیں اور یوں لگتا ہے کہ ایران کو کسی نے فوری طور پر اس جال میں پھنسادیا ہے۔ اس عمل کو بھارتی وزیر خارجہ کے دورے سے الگ کر کے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہت عرصے سے یہ کوششیں جاری تھیں کہ پاکستان اپنا دشمنی کا بورڈ اب واہگہ سے اُتار کر طورخم یا تفتان پھاٹک پر لگا دے۔ گریٹ گیم میں پاکستان اور بھارت کو اس انداز سے تجارت اور کھلی سرحدوں کے ساتھ شیر وشکر کرنا ہے جس میں من وتو کی تمیز باقی نہ رہے اور حد تو یہ کہ بھارت میں ایک انتہا پسند حکومت کے باوجود اس پالیسی پر اصرار جاری ہے اور انتہا پسندی کے غلبے کا سوال کس قدر غیر اہم ہو کر رہ گیا اس کا واضح اظہار انٹونی بلنکن کے ڈویوس کانفرنس میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ہے۔
پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر امن کی کونپلیں کھل اُٹھی ہیں دونوں کے درمیان رنجشوں اور تلخیوں کو کم کیا جا رہا ہے اور مستقبل میں اس صورت حال میں نمایاں تیزی دیکھی جا ئے گی۔ ایسے میں کشیدگی کے ساتھ رخ اور ہدف اب زاہدان اور طورخم پھاٹک کی طرف مڑنے لگے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کے نئے کردار اور میعار تخلیق ہونے لگے ہیں۔ ایران نے نادانستہ یا کسی فرمائش پر اس ایجنڈے کو ایک راستہ دے دیا۔ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی اس لحاظ سے ضروری تھی کہ یہ بھارت کے لیے سرجیکل اسٹرائیکس کا مستقل دروازہ کھولنے کے مترادف تھا، بھارت جو ممبئی حملوں کے بعد سے کبھی مظفرآباد تو کبھی مریدکے میں علامتی حملوں کی فرمائش کرتا چلا آرہا تھا اس رسم وریت سے اپنے ماضی کے خوابوں کو پورا کرنے کا راستہ اپنا سکتا تھا۔ یہ حقیقت میں ایران کے پردے میں بھارت کو پیغام ہے کہ دوبارہ کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کا نتیجہ بالاکوٹ کی صورت میں ہی برآمد ہو سکتا ہے۔ ایران نے بہرحال بیٹھے بٹھائے ایک بین الاقوامی منصوبے کو راہ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے جواب میں ایران کو کہاں کہاں کس انداز کا ریلیف ملتا ہے اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا۔