اگر اعتبار ہوتا

625

پچھلی دہائی میں جب زرداری صاحب نے یہ کہا تھا کہ وعدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے تو اس پر بہت لے دے کی گئی تھی۔ عمران خان بھی جب وعدے کرکے مکر جاتے تھے اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے تو کٹے سے کٹا یوتھیا بھی ایک لمحے کے لیے پشیمان ہوجاتا تھا حالانکہ اس میں پشیمانی کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ یہ حکمرانوں کے وعدے اور قسمیں تھیں۔ جھوٹی قسمیں کھانے سے جن کے نزدیک ان کا ایمان کچھ نہیں ہوتا۔ وہ عادتاً وعدے کرتے ہیں آپ بھی یقین کرنا عادت بنا لیجیے۔

عادتاً تم نے کردیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
(گلزار)

آج کل الیکشن کا موسم ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان روز وعدوں کی گٹھڑی اٹھائے عوام کے پاس جائیں گے اور ممکن اور ناممکن ہر طرح کے وعدے اس آسانی سے کرلیں گے جیسے منہ سے یوں ہی کوئی بات نکل جائے۔

ملنے کا وعدہ ان کے تو منہ سے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے کہا ہنس کے خواب میں
(میرتقی میر)

حکمرانوں پر اہل کوفہ کا سایہ ہوتا ہے۔ غلطی ان کی ہے جو وعدوں کو عقیدہ بنا کے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ حکمران سیاست دان ہوں یا جرنیل عوام سے کیے گئے وعدوں کا کیا لحاظ کریں گے جو باہم کیے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں چودھری شجاعت حسین کی یادداشتوں ’’سچ تو یہ ہے‘‘ سے چند اقتباس۔ جھوٹ سچ بر گردن چودھری صاحب:

٭ 22مارچ (1985) سے ایک دن پہلے، جب وزیراعظم کے نام کا اعلان کیا جانا تھا، صدرضیاء الحق نے ڈاکٹر بشارت الٰہی، پرویزالٰہی اور مجھے بلوایا اور کہا کہ آپ لوگ ابھی جاکر الٰہی بخش سومرو صاحب کو بتادیں کہ کل انہی کو وزیراعظم نامزد کیا جارہا ہے۔ ہم تینوں ایوان صدر سے نکل کر سیدھے سندھ ہائوس پہنچے۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ الٰہی بخش سومرو صوفے پر نیم دراز تھے۔ جب ہم نے ان کو یہ خوش خبری سنائی تو وہ انتہائی مسرور ہوئے اور اس خوشی میں ہمیں مٹھائی بھی کھلائی۔

اگلے روز صبح ہم ایوان صدر پہنچے۔ ہمارے علاوہ کسی کو بھی علم نہ تھا کہ وزارت عظمیٰ کا ہما کس کے سر پر بیٹھ رہا ہے۔ الٰہی بخش سومرو مطمئن نظر آرہے تھے لیکن جیسے ہی ضیاء الحق نے خطاب کے دوران اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ ملتے ہوئے کہا کہ میں موجودہ حالات میں محمد خان جو نیجو کو نامزد کرتا ہوں تو وہاں موجود سب لوگ ششدر رہ گئے۔

٭ (جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد 1988 میں محترمہ بے نظیر وزیراعظم منتخب ہوگئیں۔ 1990 کے آتے آتے) حیرت انگیز طور پر بہت تھوڑے عرصے میں بے نظیر حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہوگئی۔ صدر غلام اسحاق خان اور اپوزیشن ہی سے نہیں بلکہ فوج سے بھی ان کے تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سندھ میں فوج کے آئینی اختیارات کے ضمن میں حکومت کے موقف پر کئی بار اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے تھے۔ ادھر بے نظیر حکومت کی کرپشن کی کہانیاں جنگل کی آگ کی طرح ہرسو پھیل رہی تھیں۔ سب کو نظر آرہا تھا کہ حکومت کا مدت پوری کرنا بہت مشکل ہے۔

16اگست 1990 کی صبح کو روزنامہ دی نیشن اور نوائے وقت میں عارف نظامی کی یہ خبر شائع ہوچکی تھی کہ آج شام کسی وقت بھی اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی لیکن بے نظیر بھٹو آئی ایس آئی چیف شمس الرحمن کلو کی موجودگی میں معمول کی سرگرمیوں میں مگن تھیں۔ وہ اتنی مطمئن نظر آرہی تھیں کہ اس روز انہوں نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی صدارت بھی کی۔ ان کے اس اطمینان کی وجہ یہ تھی کہ ان اطلاعات پر کہ آج ان کی حکومت بر طرف کی جارہی ہے انہوں نے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے سے رابطہ قائم کیا اور درخواست کی کہ وہ صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کرکے ان سے حقیقت حال دریافت کریں۔

امریکی سفیر صبح ساڑھے نو بجے صدر سے ملنے ایوان صدر گئے۔ ان کے بعد ہیپی مینوالا نے بھی صدر سے ملاقات کی۔ دونوں نے واپس آکر بے نظیر بھٹو کو بتایا کہ صدر غلام اسحق خان نے حکومت بر طرف کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی تشفی ہوگئی لیکن شام پونے پانچ بجے جب صدر غلام اسحق خان نے بے نظیر بھٹوکو فون کرکے حکومت بر طرف کرنے کے فیصلے سے مطلع کیا تو بے نظیر بھٹو بری طرح بو کھلا گئیں اور کہا اگر آپ نے یہی فیصلہ کر رکھا تھا تو آج صبح آپ نے اس کی تردید کیوں کی۔ اس پر صدر غلام اسحق خان نے مختصر سا جواب دیا کہ یہ فیصلہ میں نے آج بعد دوپہر کیا ہے۔

٭ 3فروری 1997 کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا۔ جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا، نواز شریف کے والد میاں محمد شریف بنفس نفیس گلبرگ ہمارے گھر تشریف لائے۔ کہنے لگے، میں آپ کی والدہ سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہم ان کو اپنی والدہ کے پاس لے گئے۔ میاں محمد شریف نے میری والدہ سے کہا کہ میں اور میرا خاندان آپ کے انتہائی احسان مند ہیں۔ آپ لوگوں نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے حتیٰ کہ ہمارے لیے جیل بھی کاٹی ہے۔ اب میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس بار الیکشن میں کامیابی کے بعد اگر نواز شریف وزیراعظم بنتے ہیں تو پرویزالٰہی ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بھائی کے وزیراعظم ہوتے ہوئے دوسرا بھائی وزیراعلیٰ بن جائے۔ ان شاء اللہ اس بار آپ کے بچوں کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھے گا اور دونوں خاندان ایک خاندان کی طرح مل کر اکٹھے چلیں گے۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

الیکشن میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت گئی تو پہلے کی طرح اس بار بھی وعدہ خلافی کی گئی۔ نواز شریف وزیراعظم اور ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ بن گئے۔ تاہم وفاقی کابینہ میں مجھے ہی دوبارہ وزیر داخلہ بنایا گیا، جب کہ پنجاب میں کسی بد مزگی سے بچنے کے لیے چودھری پرویزالٰہی نے اس بار وزیر نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کی ذمے داری انہوں نے قبول کرلی۔

٭ زرداری صاحب سے بات آغاز ہوئی تھی زرداری صاحب پر ہی کالم اختتام کرتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا: سیاسی جماعتوں میں کوئی معاہدے نہیں ہوتے بلکہ مفاہمت ہوتی ہے۔ سیاسی مفاہمت میں کبھی پچاس فی صد کامیابی ہوتی ہے تو کبھی اس سے زیادہ (یعنی سیاسی وعدے کبھی پچاس فی صد سچ ہوتے تو کبھی اس سے زیادہ بقیہ جھوٹ)