گاہے گاہے باز خواں (4)

646

رن کچھ کی جھڑپوں سے جنگ ستمبر تک وزارت خارجہ اور جی ایچ کیو اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے رہے جو بری طرح ناکام ہوگئی۔ جنگ کے بعد دفتر خارجہ اور جی ایچ کیو دونوں اپنے دامن جھاڑ کر الگ ہوگئے۔ صدر ایوب خان ان کی ٹوٹی ہوئی حکمت عملی کے ریزوں کو جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ صدر پاکستان سے حقائق چھپانے کا جو سلسلہ رن کچھ سے شروع ہوا تھا، تاشقند تک جاری رہا۔ محسوس ہوتا ہے کہ بھٹو اپنے دورہ ماسکو میں مذاکرات کے خدو خال اور معاہدے کے خاکے سے اتفاق کرچکے تھے جس سے ایوب خان کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ طویل مذاکرات کے بعد بالآخر معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اسی رات وزیراعظم ہند لال بہادر شاستری دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ مذاکراتی وفد کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد معاہدہ تاشقند کا اعلان سفارتی روایات کے برعکس وزارت خارجہ کے بجائے وزارت اطلاعات کے ڈپٹی سیکرٹری نے کیا جس سے وزارت خارجہ کی منفی حکمت عملی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس اعلان کے فوراً بعد ملک میں ردعمل کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس میں کئی افراد مارے گئے۔ معاہدہ تاشقند نے ملک میں ایک سیاسی بحران کی بنیاد رکھ دی۔ ایوب خان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ وزارت خارجہ اور جی ایچ کیو میں، جہاں بھٹو کی جرأت اور حب الوطنی کی تعریف ہوتی وہیں ایوب خان کی بزدلی کی مذمت کی جاتی۔ (حالانکہ صورتحال اس کے برعکس تھی) ایوب خان کو نیچا دکھانے کے خواہش مندوں نے مسئلہ کشمیر ہی نہیں پاکستان کی سالمیت کو بھی خطرات سے دوچار کردیا تھا (کتاب کے یہ ابواب پڑھتے ہوئے مجھے جنرل مشرف کا کارگل ایڈونچر یاد آتا رہا جس کی سزا صرف نواز شریف کو نہیں بلکہ ترقی کا سفر رکنے کی صورت میں پاکستان کو بھی بھگتنا پڑی) وزارت خارجہ سے علٰیحدہ کیے جانے کے بعد بھٹو نے اخباری بیانات اور عوامی اجتماعات میں یہ تاثر دیا کہ بوڑھے بزدل ایوب خان نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے (حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی)۔

جنوری 1966 میں ہونے والے معاہدہ تاشقند کے خلاف عوامی ردعمل جاری تھا کہ فروری 1966 میں لاہور میں ایک غیر معمولی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ فاروق عادل ’’ان کہی ہی رہ گئی جو بات‘‘ کے عنوان سے اس کانفرنس کا احوال لکھتے ہیں جس میں نظام اسلام پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی، عوامی لیگ کے سربراہ نوابزادہ نصراللہ خان، جماعت اسلامی کے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولوی فرید احمد، سردار شوکت حیات، مولانا عبدالستار خان نیازی، یحییٰ بختیار، خواجہ محمد رفیق اور جنرل اعظم خان شامل تھے۔ ان سینئر سیاست دانوں اور اعلیٰ ترین دماغوں کے سامنے شیخ مجیب الرحمن نے ایک فائل کھولتے ہوئے کہا ’’میری عرض داشت کا مقصد پاکستان کے دونوں حصّوں کو ایک سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رکھنے کی سنجیدہ کوشش ہے‘‘۔ اس دستاویز کے مطالعہ کے بعد بالاتفاق فیصلہ کیا گیا کہ ان تجاویز کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ مجیب کی خواہش تھی کہ بے شک ان تجاویز کو ایجنڈے اور حتمی دستاویزات کا حصّہ نہ بنایا جائے، ان پر صرف غور کرلیا جائے، لیکن سبجیکٹ کمیٹی کی طرف سے اس کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس بے لچک رویّے اور غیر مفاہمانہ طرز عمل کو دیکھتے ہوئے کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔ ڈھاکہ واپس پہنچ کر انہوں نے کہا کہ وہ نیشنل کانفرنس میں شریک ہی اس شرط پر ہوئے تھے کہ ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ ان تجاویز میں جو بعد میں سامنے آئیں، صوبائی خودمختاری کی ایسی شکل کا مطالبہ کیا گیا تھا جس میں وفاق کے پاس صرف دفاع اور امور خارجہ ہوں بقیہ تمام معاملات میں صوبوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہو (ان نکات کی تفصیل کتاب کے صفحات 218 تا 220 پر درج ہے) مجیب الرحمن شامی کا خیال ہے کہ اگر یہ نکات اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے سامنے آتے تو ایوب خان حزب اختلاف کو علٰیحدگی پسند قرار دے کر کچل دیتے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف تحریک دم توڑ دیتی۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی پاکستان میں شیخ مجیب کی بات سنی ہی نہیں گئی۔ سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی نے مشرقی پاکستان کو دفاع میں خودکفیل بنانے کی بات کی۔ عبدالباقی بلوچ نے مشرقی پاکستان میں اسلحے کے کارخانے قائم کرنے پر زور دیتے ہوئے فوج میں بھرتی کے لیے بنگالیوں کے لیے قد کے معیار کو کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے امیر ابوالکلام محمد یوسف نے مشرقی پاکستان میں فوجی اکیڈمی قائم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن شیخ مجیب نے ماحول گرم کیے رکھا یہاں تک کہ عوامی لیگ دو حصّوں میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی قیادت مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصراللہ خان کررہے تھے۔ بعد میں نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنی پارٹی کا نام پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی رکھ لیا۔

’’بے گناہ خون کا انتقام‘‘ کے عنوان سے فاروق عادل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کی روداد یوں لکھتے ہیں۔ ایوب کابینہ سے الگ کیے جانے کے بعد بھٹو ملک گیر دورہ کررہے تھے۔ اس سفر میں 7 نومبر 1968 کو راولپنڈی کے طلبہ نے ان کے خطاب کا انتظام کیا۔ بھٹو صاحب تو تقریر کرکے آگے بڑھ گئے لیکن طلبہ کا ہجوم پولیس کی زد پر آگیا۔ بات فائرنگ تک پہنچ گئی اور ایک طالب علم عبدالحمید موقع پر ہلاک ہوگیا۔ بھٹو نے عبدالحمید کی لاش اس کے گاؤں پنڈی گھیپ پہنچانے والے جلوس کی قیادت کی۔ ستر میل کے اس جلوس سے بھٹو کی قسمت کا ستارہ طلوع اور ایوب کا ستارہ غروب ہوگیا۔ 7 نومبر 1968 سے 25 مارچ 1969 تک ہر دن ایک نیا ہنگامہ جنم لیتا رہا یہاں تک کہ یحییٰ خان نے مارشل لا نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

فاروق عادل مضمون ’’جب ٹوٹ گیا سلسلہ تکلم کا‘‘ میں سقوط ڈھاکہ کی تفصیلات بتاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات کا محور اختیارات کی تقسیم تھا۔ الطاف حسین قریشی لکھتے ہیں ’’صدر یحییٰ اور بھٹو سے کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے 23 مارچ 1971 کو اپنے طور پر آئینی تجاویز پیش کردیں جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کنفیڈریشن کی تجویز شامل تھی‘‘۔ یحییٰ اور بھٹو نے یہ تجویز مسترد کردی۔ 25 مارچ 1971 کو فوجی کارروائی شروع ہوئی۔ بھٹو نے ڈھاکہ سے کراچی پہنچ کر کہا ’’خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کو بچالیا گیا‘‘ 16 دسمبر 1971 کو پاک فوج نے ہتھیار ڈالے۔ یحییٰ خان معزول ہوئے اور 20 دسمبر 1971 کو بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔

یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ رن آف کچھ سے سقوط ڈھاکہ تک۔۔۔ کس نے کیا کھویا کس نے کیا پایا؟