گاہے گاہے باز خواں (3)

593

نئی نسل نیب اور اس کے کارناموں سے اچھی طرح واقف ہے کہ ایک ادارہ جسے سرکاری منصب داروں کو مالی بدعنوانی اور اخلاق باختگی سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا نظرداری کا نظام قائم کرنا تھا، کس طرح سیاست دانوں سے انتقام لینے اور ان کو بلیک میل کرکے ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے استعمال ہورہا ہے لیکن فاروق عادل اپنے مضمون ’’اتنی سی بدعنوانی؟‘‘ میں نئی نسل کو بتاتے ہیں کہ اس کاربد کا آغاز جنرل محمد ایوب خان نے کیا جب انہوں نے مارشل لا کے ضابطے کے تحت ایک قانون الیکٹو باڈیز ڈس کوالیفیکیشن آرڈر (ایبڈو) نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت ملزمان، الزامات ثابت ہونے یا رضاکارانہ الزامات تسلیم کرنے کی صورت میں یکم جنوری 1960 سے 31 دسمبر 1966 تک کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے نااہل تصور کیے جائیں گے۔ اس قانون کی زد میں آنے والے افراد کی تعداد دو ہزار سے چھے ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت 98 ممتاز سیاست دانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی جن میں سے 70 رضاکارانہ طور پر نااہلی قبول کرکے سیاست سے تائب ہوگئے ان رضاکار نااہلیوں میں سابق وزیر اعظم فیروز خان نون، سابق سفیر یوسف ہارون، قاضی محمد عیسٰی، نواب افتخار حسین ممدوٹ، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، پیرزادہ عبدالستار، قاضی فضل اللہ، پیر الٰہی بخش، محمد ایوب کھوڑو، نواب اکبر خان بگٹی، کرنل عابد حسین، خان عبدالقیوم خان، نواب مشتاق احمد گورمانی، میاں افتخارالدین سمیت بہت سے نمایاں اور مقبول سیاست دان شامل تھے۔ 28 سیاست دانوں نے مقدمہ لڑ کر اپنی صفائی پیش کرنا چاہی جن میں سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، مخدوم زادہ حسن محمود اور سیسل ایڈورڈ گبن شامل تھے لیکن یہ اور دیگر 19 افراد مقدمہ ہار کر نااہل ہو گئے۔ اس قانون کے پیچھے جو ذہنیت کارفرما تھی اس کا اندازہ ایک مثال سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایوب خان جن دنوں فوج کے سربراہ تھے وہ ایک بار کسی کام سے وزیر دفاع ایوب کھوڑو سے ملنے آئے جہاں انہیں ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ یہ بات ایوب خان پر گراں گزری چناں چہ ایوب کھوڑو کے دماغ کی گرمی نکالنے کے لیے ان پر مقدمہ قائم کردیا گیا۔
مسئلہ کشمیر، معرکہ رن کچھ، آپریشن جبرالٹر، آپریشن گرینڈ سلام پاک بھارت جنگ 1965 اور معاعدہ تاشقند وہ موضوعات ہیں جن پر اسرار کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔
’’کیا یہ کشمیر کا درد تھا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا گیا مضمون سندھ کے دلدلی ساحلی علاقے رن آف کچھ میں سرحدی چھیڑ چھاڑ کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ تین دن کے وقفے سے دو جھڑپوں میں بھارت اپنی پوسٹ خالی کرکے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا تھا۔ تیسری جھڑپ میں بھارت کا ایک فوجی دستہ عارضی پل بنا کر پاکستان کی حدود میں داخل ہوا تھا، اس پل کو تباہ کرکے دستے کی واپسی کا راستہ بند کیا جاسکتا تھا لیکن ایوب خان نے جنرل موسیٰ کو اس کی اجازت نہیں دی کہ اس طرح مکمل جنگ چھڑ جاتی۔ ایوب خان کے پیش نظر اس گوریلا کاروائی کا تجربہ تھا جو درگاہ حضرت بل سے موئے مبارک کی گمشدگی کے سبب ہونے والے ہنگاموں کے دوران کی گئی تھی اور بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔ رن کچھ کے واقعے کے بعد وزارت خارجہ اور جی ایچ کیو میں ایوب خان کے بڑھاپے اور بزدلی کے تبصرے بھی ہوتے رہے۔ فروری 1965 اور پھر جولائی 1965 میں کشمیر میں مداخلت کے منصوبے پیش کیے گئے۔ فروری میں ایوب خان نے اس منصوبے کو بہ یک جنبش قلم مسترد کردیا لیکن 14 جولائی کے اجلاس میں ایوب خان ’’آپ لوگ دیکھ لیں‘‘ کہہ کر اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ بقیہ اجلاس کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے آپریشن جبرالٹر کی منظوری دی جو 7 اگست کو شروع ہوا۔ 28 اگست تک آپریشن مکمل ناکام ہوچکا تھا ’’میرے جوانوں کے پاس لڑنے کے لیے پتھروں کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔ جنرل موسیٰ نے چلاتے ہوئے کہا۔ اس مشکل سے نکلنے کے لیے آپریشن گرینڈ سلام شروع کرنا تھا جس کی منظوری دینے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کو سوات جانا پڑا۔ ایوب خان نے جو حکم نامہ لکھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں حالات سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ جنرل گل حسن لکھتے ہیں کہ جی ایچ کیو میں بھی جھوٹ کا بازار گرم تھا، ہر طرف فتح کے ڈنکے بج رہے تھے۔
31 اگست کو شروع ہونے والا آپریشن گرینڈ سلام 2 ستمبر تک انتشار کا شکار ہو کر غیر موثر ہوگیا۔ 6 ستمبر کو بھارت نے کشمیر پر دباؤ کم کرنے کے لیے لاہور کی طرف پیش قدمی کی جس کے سبب باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ 23 ستمبر کو جنگ بندی کے بعد مسئلے کے حل کے لیے سوویت یونین کے وزیراعظم الیکسی کوسیجن، کینیڈا کے وزیراعظم لیسٹر پیرسن، یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے کوششیں شروع کردیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نومبر میں روس اور ایوب خان نے برطانیہ اور امریکا کے دورے کیے۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ وہ برطانیہ کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار کرلیں گے لیکن انہیں اس میں ناکامی ہوئی۔ ایوب خان کو دوسرا جھٹکا وزیر خارجہ کے اس بیان کا لگا جسے عالمی پریس میں نمایاں جگہ ملی، کہ پاکستان ان مذاکرات میں غیر مشروط شرکت کے لیے تیار ہے، لیکن پاکستان پہنچتے ہی بھٹو صاحب نے اپنا بیان بدل لیا۔ ایوب خان کو تیسرا جھٹکا تاشقند پہنچ کر لگا جب مذاکرات کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے پاکستانی وفد کا اجلاس ہوا اور یہ انکشاف ہوا کہ وزارت خارجہ نے اس دورے کی کوئی تیاری نہیں کی ہے، یہاں تک کہ افتتاحی اجلاس سے خطاب کے لیے صدر مملکت کی تقریر کا مسودہ بھی تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ایوب خان نے سیکرٹری اطلاعات کو ہدایت کی کہ وہ افتتاحی اجلاس کے لیے ان کی تقریر تیار کریں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے چند نکات بھی دیے جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا لیکن بھٹو صاحب نے اس تقریر سے کشمیر کا ذکر حذف کرادیا کہ اس سے مذاکرات میں تعطل کا خدشہ تھا۔ مذاکرات تو شروع ہو گئے لیکن جب ایوب خان نے اصرار کیا کہ مسودے میں مسئلہ کشمیر کے حل کا خودکار نظام قائم ہونا چاہیے تو کوسیجن نے کہا ’’جناب صدر! اس مرحلے پر آپ کا یہ اصرار مناسب نہیں ہے کیوں کہ آپ کے وزیر خارجہ ماسکو میں یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ تاشقند مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہوگی‘‘۔ (جاری ہے)