!بلنکن کا دورہِ مشرقِ وسطیٰ پھر ناکام ہوگا

523

ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ تاریخی مسجد جمکران کے گنبد پر سرخ علم لہرانے مقصد یہ ہے کہ ایران نے امریکا اور اسرائیل کو دو ٹوک لفظوں میں بتا دیا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں داعش نہیں امریکا اور اسرائیل ملوث ہیں۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل کسی صورت غزہ کی جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے وہ خطے کے ممالک میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہاہے۔ گنبد پر سرخ علم لہرانے کا سلسلہ جنوری 2020 میں ملکی تاریخ میں پہلی بار اس وقت شروع کیا گیا تھا جب سابق امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کر دیا گیا تھا اور یہ اس وقت اُتارا گیا جب ایران نے اعلان کیا کہ اس نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ لے لیا ہے۔ امریکا نے اس واقعے میں اپنے یا اسرائیل کے ملوث ہونے کی تردید کردی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) کی طرف سے کیا جانے والا ’دہشت گردانہ حملہ‘ ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کے ترجمان دانیال ہاگری نے صالح العروری کی شہادت پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن کہا کہ فوج اس کے بعد کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل حماس جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے اپنے چوتھے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ 7اکتوبر 2023ء سے بلنکن اسرائیل بچاؤ مہم میں مصروف ہیں اور اسرائیل فلسطین میں عورتوں اور بچوں کو بمباری کرکے شہید کر رہا ہے۔ اس دورے کے کیا مقاصد ہیں اس بارے میں تین ماہ سے ایک ہی مقصد نظر آرہا ہے۔ بلنکن ایسے وقت میں مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کر رہے ہیں جب غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد لڑائی کا دائرہ پھیلنے اور علاقائی لڑائی کی شکل اختیار کرنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل کا اس جنگ میں ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطینیوں کو مکمل طور سے ختم کر دیا جائے۔ قبل ازیں بلنکن کے تین دورہ کا ایک ہی مقصد تھا کہ فلسطین میں بسنے والوں کے قتل کو مشرقِ وسطی ٰ کے ممالک اسرائیل کا حق سمجھ کر قبول کریں اور اسرائیل کو پورا فلسطین دے دیا جائے۔ اے ایف پی کے مطابق بلنکن جمعرات 4جنوری کی شام واشنگٹن سے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہوئے۔ ان کے دورے میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ لیکن سب سے پہلے وہ ترکی گئے۔ بلنکن اس سے قبل متعدد عرب ممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد ان کا خطے کا چوتھا اور اسرائیل کا پانچواں دورہ ہوگا۔

2 جنوری کو لبنانی دارالحکومت بیروت کے مضافات میں ایک مشتبہ اسرائیلی حملے میں حماس کے ایک سرکردہ رہنما صالح العروری کی شہادت کے بعد لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے 3جنوری کو کہا تھا کہ تنازعے میں مزید اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں۔ ایسا ہونا خطے کے کسی ملک اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک کے مفاد میں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیلی فوج نے ایسے بیانات دیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیروت میں ڈرون حملے میں حماس رہنما کے قتل کے بعد دونوں لڑائی کے غزہ کی پٹی سے باہر پھیلاؤ کا خطرہ مول لینے سے بچنا چاہتے ہیں۔

حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے جنوری کو بیروت میں اپنی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ 2 جنوری کو حماس کے نائب صالح العروری کے قتل کے بعد حزب اللہ خاموش نہیں رہ سکتی۔ اس موقع پر نصراللہ نے کہا کہ اگر اسرائیل نے لڑائی کو لبنان تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تو ان کی فوج آخری دم تک لڑے گی لیکن انہوں نے حماس کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی کوئی ٹھوس دھمکی نہیں دی۔ حماس کے نائب صالح العروری کا قتل اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں ایرانیوں کی ہلاکت نے ایک مرتبہ پھر یہ واضع کر دیا ہے امریکا بلنکن کے دورے سے قبل خطے کے طاقتور ممالک جن سے اسرائیل کو خطرہ ہے میں خوف کا عالم پیدا کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہوئے اسرائیل کو بالادست بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے بائیڈن انتظامیہ نے عوامی اور سفارتی حمایت سمیت ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے بھی اسرائیل کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ بلنکن نے چند روز قبل ایک بار پھر کانگریس کے حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل میں تیزی کا اعلان کیا ہے۔ بائیڈن کا یہ رویہ عرب دنیا کے کچھ حصوں میں غم و غصے کا سبب بنا ہے۔ امریکی میں صدارتی انتخاب میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور صدر بائیڈن کی یہ پالیسی ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو بھاری پڑ رہی ہے، جس کے زیادہ تر رہنماؤں کا تعلق بائیں بازو کے ساتھ ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کی اموات کے ساتھ ساتھ نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی شراکت داروں کے اشتعال انگیز بیانات پر بھی غصے کا اظہار کیا ہے۔ اسے کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دو اسرائیلی وزرا ایتمار بن گویر اور بتسالیل سموترچ کے ان حالیہ بیانات کو مسترد کردیا تھا، جن میں انہوں نے فلسطینیوں کی غزہ سے باہر آبادی کاری کی وکالت کی تھی۔ دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ پر زمینی اور فضائی بمباری کے نتیجے میں 3جنوری تک جان سے جانے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 22 ہزار 313 تک پہنچ گئی ہے، جو اس کی 23 لاکھ آبادی کا تقریباً ایک فی صد ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے حملے کی دھمکی کے جواب یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے رکن نے کہا کہ اگر امریکا یمن پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو یمنی فوج اس سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور یمن کے امریکا حیران کن آپشنز موجود ہیں۔ سحر نیوز/ عالم اسلام: یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے رکن حازم محمد الاسد نے ارنا نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یمن کو امریکا کے حالیہ موقف اور اسرائیلی جہازوں کی حفاظت کے لیے بحری اتحاد کی تشکیل کے اعلان پرانی باتیں ہیں۔ امریکا جنگ کے آغاز ہی سے غزہ کے عوام کے خلاف حملوں کا اصل اتحادی رہا ہے اور وہ یمنی میزائلوں اور ڈرونز کو اسرائیل تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ محمد الاسد نے کہا کہ صہیونی حکومت کے جرائم کی حمایت میں امریکا کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے وقت واشنگٹن نے مختلف سطحوں بالخصوص فوجی سطح پر صہیونی حکومت کی حمایت کی اور فلسطینی خواتین بچوں کے قتل عام کے لیے ہتھیار بھیجے۔ مسٹر اینٹونی بلنکن کا دورہ اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسرائیل کو فلسطینی عورتوں اور بچوں کے قتل عام سے روکنے میں ناکام رہے گا۔