نئے سال کا نیا پن

634

نئے سال کے دامن میں کچھ ’’نیا‘‘ کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ’’نئے‘‘ اور ’’پرانے‘‘ کی بہ لحاظ الفاظ تشریح ضروری ہے۔
لفظ ’’نیا‘‘
صِفت: جدید۔ تازہ۔ ابھی کا۔
لفظ ’’پرانا‘‘
قدیم، دیرینہ، اگلے وقتوں کا، اگلے فیشن، وضع یا تہذیب کا، سابق، ماضی کا، استعمال شدہ، بوسیدہ، فرسودہ، سن رسیدہ، زیادہ عمر کا، بوڑھا تجربہ کار، جہاں دیدہ، کار آزمودہ عادی، جسے کسی بات کی عادت پڑ گئی ہو۔
سنا ہے کہ نئے نویلے چڑھتے ہوئے عیسوی سال کے دوسرے مہینے میں پاکستان کے عوام کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے ملک پر چھائے ہزاروں سال پرانے، بوسیدہ، استعمال شدہ (اور ناکام ترین)، گورے کے کالے قوانین و روایات کے مہیب سائے جھٹلا کر محض ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی جدید، تازہ، اور کامیاب تہذیب، روایات و قوانین کے نفاذ کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ دیکھا اور برتا ہے کہ ابھی تک میرے ملک میں مغربی گورے کا کالا قانون ہی چلتا رہا ہے اور پاکستان کی نظریاتی تقسیم کا ڈنکا پیٹنے کے لیے ہر شے کے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ لگا کر کام چلایا جاتا رہا ہے مثلاً: پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی۔ نظریاتی کونسل کے نام کے ساتھ اسلامی۔ اغیار کی ثقافت اپنا کر نام اسلامی۔ پڑوسی ملک کی ’’شادی‘‘ سے سات پھیرے ہٹا کر ولیمے کا تڑکا لگا کر نام اسلامی۔ پسر و پدر کی ’’برتھ ڈے‘‘ منانے کے لیے کیک کاٹنے والی چھری کا نام اسلامی۔ کرسمس کا 25 تاریخ کو آیا ہوا کیک 26 تاریخ کو کھانے کا ڈھونگ رچانے کا نام اسلامی۔ سیاسی جماعتوں کے طبلوں اور ڈی جے بینڈ کی دھنوں میں ’’ٹچ‘‘ کا نام اسلامی۔ وراثت کی تقسیم کا نظام ہندوانہ اور نام اسلامی۔ دیت اور قصاص کی ڈیل اسرائیلی مگر نام اسلامی۔ اور تو اور سورہ نساء ہوتے سوتے مغرب سے مستعار شدہ حقوق نسواں کا نام اسلامی۔ حدود آرڈیننس میں دنیاوی آقاؤں کے حکم کی تعمیل کا بھی نام اسلامی۔
انٹر کی اردو کی کتاب میں منٹو کی تصنیف نیا قانون میں منگو کوچوان کا خواب، خواب ہی رہتا ہے اور نیا قانون آ کر بھی نیاپن نظر نہیں آتا منگو کوچوان کی خوشی، امید اور لگن پاکستانی عوام ہر انتخابات میں محسوس کرتے ہیں اسی آس پر کہ کچھ نیا ہونے جا رہا ہے یہاں تک کہ آمریت، افسر شاہی اور نوکر شاہی کی بھیانک سازشوں کے بعد جب روٹی کپڑا اور مکان کی مسحور کن صدائیں لگیں تو محبوب سے پہلی سی محبت کے تقاضے نہ کرنے والوں کو بھی چاند روٹی کی طرح گول دکھنے لگا مگر پھر یوں ہوا کہ وہ روٹی بھی قومیائے جانے کے بعد ’’سرکاری‘‘ ہو گئی اپنی نہ رہی پرائی ہوگئی اس روٹی کو ’’حلال‘‘ کرنے کے لیے روس کے ساتھ لڑائی ہوگئی افغانستان سے دوستی پرائی ہوگئی اور اپنے ہی ملک کے اندر اوجڑی کیمپ میں امریکا سے ہماری دھلائی ہو گئی دھلائی تو سانحہ بہاولپور 17 اگست 1988 کو بھی ہوئی مگر ہم نے کچھ بھی نہ کہا اور ’’سہہ‘‘ بھی گئے کہنے کی کوشش کی تو بات کرتے کرتے پہنچی روٹی والی سرکار کی بیٹی کو شہید رانی بنانے تک اور پھر تبدیلی سے پہلے ’’یاروں‘‘ میں باریاں لگیں ان باریوں میں فصیل شہر پر اُگی ہوئی فصلیں تاراج ہوئیں تو پھر سچ مچ تبدیلی کے نعروں اور گانوں کی گونج میں پاکستان کے عوام نے ڈھول کی تھاپ پر ریاست مدینہ کے راگ الاپنے شروع کر دیے دور کہیں اُفق کے اس پار نظریے کے سینے میں ہوک سی اٹھتی دکھائی دی جو سرگوشیوں میں کہہ رہی تھی۔
’’سچ کہا تم نے تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے آ چکی ہے بس اٹھو اور اسے نیا قانون بنا کر نافذ کر دو‘‘۔
اے شاعران قوم زمانہ بدل گیا
پر مثل زلف یار تمہارا نہ بل گیا
پیٹو گے کب تلک سر رہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کر نکل گیا
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا
ہاں ہاں سنبھالو قوم کو شاید سنبھل ہی جائے
گر گر کے ملک ہند کچھ آخر سنبھل گیا
مگر کیا ہوا تبدیلی بھی پھر تبدیل ہو گئی ’’حق‘‘ کے ساتھ نہ رہی تو باطل کے ہاتھوں اس کی تذلیل ہوگئی اور عوام بیچارے منگو کوچوان کی طرح حوصلے میں قلیل ہو گئے۔ اب پھر اس قوم کو معرکہ درپیش ہے اور اس نوید کی عیسوی سال کے آغاز میں شنید ہے، اس کی طاقت بہت شدید ہے یہ قوم پچھتر سال سے عقلیت پسندی کے جوہر دیکھ کر اب ’’غیبی طاقت‘‘ کو آزمانے کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ یہ غیبی طاقت وہ نہیں کہ جس میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’کوئی رہ تو نہیں گیا‘‘ کے نظر آتے غیر مرئی ’’بوٹوں‘‘ کی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ طاقت وہ طاقت ہے کہ جو بوٹوں کے اندر مقید قدموں کو بھی گھنٹے کے بل قبلہ رو کھڑا رکھتی ہے۔ یہ طاقت وہ طاقت ہے کہ جس کے لیے یہ جہان ہے اور جس کے پاس اُس جہان میں جاکر امر ہوجانے کا ہر کسی کو ارمان ہے۔ جو ہر نیا بندہ اس دنیا میں نئی امید کے ساتھ بھیجتا ہے اور ہر نیا زمانہ نئی صبح وشام سینچتا ہے کہ سحر کا سورج گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ ہر پل اسے یقین ہے کہ یہ بندہ کدھر جائے گا لوٹ کر تو میرے ہی پاس آئے گا۔ سو آنے والے نئے سال میں کچھ نیا ہونے جا رہا ہے اس کے نئے پن میں اپنے حصے کے نئے چراغ جلانا نہ بھولیے گا نئے چراغ جلاتے ہوئے ماضی کی تاریخ پڑھ لیجیے گا اور اس تاریخ کے سیاہ ابواب سے سبق سیکھتے ہوئے روشنی کے پیامبر بن جائیں اور ذاتی پسند، ناپسند سے بالاتر ہو کر وقت کی پکار پر لبیک کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری داستاں تک نہ رہے داستانوں میں۔ بین الاقوامی حالات پر کڑی نگاہ ڈالیں، دیکھیں اور جانیں کہ آج مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر جب تک اس ارض پاک پر حق کی گواہی دینے والے حکمران باطل کے مقابل حق کی تبدیلی لے کر نہ آئے تو خاکم بدہن اگلا مسئلہ پاکستان نہ کھڑا کر دیا جائے کہ دنیا بھر میں کچھ نیا ہونے جارہا ہے۔ آئیں اس نئے عیسوی سال کے آغاز میں باطل کا بوسیدہ چولا اتار کر حق و سچ کا دیانت وامانت کا نیا قانون نئے انتخابات کے ذریعے متعارف کرادیں یاد رہے نتائج ہماری ذمے داری نہیں ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں۔