مشرقِ وسطیٰ میں مدر فادر بمبوں کی بمباری کا خدشہ؟

522

اسر ائیل نے فلسطین پر ’’مدر آف آل بم‘‘ گرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے جس کا وزن 21 ہزار پاؤنڈ بتایا جاتا ہے لیکن اس کی ایک قسم کا وزن 10000 پاؤنڈ بھی ہے۔ اس بم کو فلسطینیوں کی زیر زمین تنصیبات اور سرنگیں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا لیکن اس سے ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کچھ بتانا ناممکن ہے لیکن یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ’’ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں سے 400 سے 500 گنا زیادہ ہونے کا خدشہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف زمین کے اندر ہی نہیں اس کے باہر بھی بہت بھاری تباہی کرنے کی صلاحیت رکھتی۔ امریکی بم کے دھماکے کا قطر 200 میٹر ہے اور اس بم کی قیمت 16 لاکھ ڈالر ہے اور اس کا پہلی بار تجربہ 2003 میں کیا گیا تھا لیکن اب اس کا اصل تجربہ فلسطینیوں کے جسموں کے پرخچے اُڑا کر کیا جائے گا۔ اس بم کے استعمال سے قبل امریکی صدر سے تحریری اجازت کی ضرورت ہو تی ہے امریکا میں غیر ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے لیے فوج کو امریکی صدر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ امریکی صدر کے حکم سے ’’مدر آف آل بم‘‘ اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا ہے جس کی امریکی قوانین میں قطعی اجازت نہیں ہے لیکن اسرائیل کے لیے امریکا کو کسی قانون کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بم کا مالک اب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ہے جس کو آج کل ایک ہی جنون ہے کہ فلسطینیوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔

امریکی غیر جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں سب سے طاقتور بم جی بی یو 43/بی ہے جس کو ’’مدر آف آل بمز‘‘ (Mother of All Bombs) بھی کہا جاتا ہے۔ امریکا نے اس بم کو پہلی بار 13 اپریل کو افغانستان کے ننگرہار صوبے میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کے خلاف استعمال کیا ہے۔ اس بم کا خول نسبتاً پتلا ہوتا ہے۔ یہ بم اپنے ہدف تک جی پی ایس کے ذریعے تک پہنچتا ہے۔ لیکن اب یہ بھی اطلاع ہے کہ روس کا ’’فادر آف آل بم‘‘ بھی مشرقِ وسطیٰ پہنچ چکا ہے۔ 11 ستمبر 2007 میں روسی فوج نے ’’فادر آف آل بمز‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ روسی فوج کا دعویٰ تھا کہ ان کا بم امریکی جی بی یو 43/بی سے چار گنا زیادہ طاقتور ہے۔ اگر اللہ نہ کر ے ان بموں استعمال کیا گیا تو اس سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں آگ ہی آگ کا سمندر در سمندر اُمڈ آئے گا۔ اطلاعات کے مطابق روسی بم میں 7.8 ٹن تھرمو بیرک آتش گیر مادہ ہے جبکہ امریکی جی بی یو 43/بی میں آٹھ ٹن ہے۔ روسی بم پھٹنے پر 44 ٹن ٹی این ٹی کے مقابلے کا دھماکہ کرتا ہے۔ اس بم کے بلاسٹ کا قطر 300 میٹر ہے جو امریکی بم سے دگنا ہے۔ اس کے علاوہ بم گرنے کے مرکز پر درجہ حرارت بھی امریکی بم سے دو گنازیادہ ہے۔ جی بی یو 43/بی گائیڈڈ بم ہے جس پر 18 ہزار 700 پاؤنڈ کا وار ہیڈ نصب ہوتا ہے۔ جی بی یو 43/بی ڈیزی کٹر بم کی جدید شکل ہے۔ یہ بم عراق کی جنگ سے نو ہفتہ قبل جلدی میں تیار کیا گیا تھا لیکن عراق کی جنگ میں اس کو استعمال نہیں کیا گیا۔

بی بی سی کے مطابق حماس اسرائیل جنگ بندی جتنی دیر چلی اس کو عربوں اور چین کی سفارتی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔ اب سات دن کے وقفے کے بعد اسرائیل اور حماس کو اپنے سب سے بڑے عسکری اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔ حماس اور فلسطینیوں کے لیے یہ بقا کی جنگ ہے۔ اسرائیل ایک بڑی عسکری طاقت ہے لیکن حماس اور فلسطینیوں تباہ کرنا اسرائیل کے لیے کافی پیچیدہ اہداف ہیں۔ اسرائیل کو اب تک اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ رائٹر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اسرائیل پر حماس کے حملے میں تقریباً 2000 لوگوں کی ہلاکت کے بعد بھی طاقتور انتقام‘ کا اعلان کر رہا ہے۔ اسرائیلی فوج کے جارحیت کے آغاز کے کچھ گھنٹوں میں ہی اسرائیلی حکومت اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انتونی بلنکن نے اعلان کیا کہ اسرائیل جنگی مقاصد کو حاصل کر نے اور حماس کو ختم کر نے کی مکمل طاقت رکھتا ہے۔ حماس کا خاتمہ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیلی شہروں کے لیے دوبارہ کبھی خطرہ نہ بنے‘ اسرائیل اور خاص طور سے امریکا کے مقاصد ہیں۔ لیکن دوبارہ جنگ کے فوری بعد ہی اسرائیل کے شہری اسرائیل کے شہروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ جہاں 24گھنٹے خطرے کے سائرن بج رہے ہیں۔

سات دن کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی مقاصد کیا ہیں اور اس کے بعد کیا ہو گا یہ وہ باتیں ہیں جن پر اسرائیلی وزیر اعظم ان کے سیاسی اتحادی، اسرائیل میں ان کے حریف اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن گہری سوچ میں مبتلا ہیں۔ جنگ کی ابتدا سے اب تک یہودی امریکی وزیر خارجہ چار بار اسرائیل اور خطے کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس دورے میں انتھونی بلنکن خطے کے ممالک کو اس بات پر آمدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں فلسطینیوں قتل ِ عام کو خطے کے ممالک اسرائیل کا حق تسلیم کر لیں۔ یاد رہے کہ انتھونی بلنکن کو معلوم تھا کہ جسے وہ ’انسانی بنیادوں پر وقفے‘ کا نام دے رہے ہیں اسے بڑھانے کی ان کی کوشش ناکام ہوگی اس کی وجہ یہ ہے وہ اسرائیل کو قتل عام کی کھلی اجازت دینا چاہتے ہیں لیکن خطے کے اسلامی ممالک اپنی بقا کے لیے اس قتل عام کو ظلم کہہ رہے ہیں۔

جنگ کے دوبارہ شروع ہونے سے پہلے کی شام بتایا گیا کہ امریکا کی اسرائیل کے لیے حمایت جاری اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ’اسرائیل ایک ایسے دہشت گرد گروہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بین الاقوامی اور جنگی قوانین کے مطابق کارروائی کر رہا ہے جبکہ حماس دونوں کا احترام نہیں کرتے۔ لیکن اس کے بعد وزیر خارجہ بلنکن نے اب تک کا سب سے طویل عوامی بیان دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کو یہ جنگ کیسے لڑنی چاہیے۔ انہوں کہا کہ امریکا کی اپنے سب سے قریبی اتحادی اسرائیل کی توقعات کی فہرست ہے۔ سیکرٹری بلنکن نے کہا اس کا مطلب ہے ’عام شہریوں کی جانوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدام اٹھانا، اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ فلسطینی جنوبی اور وسطیٰ غزہ میں ہیں خطرے سے دور اور محفوظ رہ سکیں۔