صحت کی دگرگوں صورت حال

383

کسی بھی ملک میں اچھی تعلیم و صحت کی فراہمی حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے۔ لیکن یہاں ہر کسی پر سیاست کا بھوت سوار ہے اور ساری عقل اور دھیان سیاست پر مرکوز ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کی صحت کی کسی کو پروا نہیں۔ بد قسمتی سے اس وقت پاکستان میں جہاں دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں وہاں پر صحت اور تعلیم دونوں کی اہمیت کو گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہمارے ملک میں متعلقہ وزارتوں میں رہنے والے اور وزیر مشیر وغیرہ نا اہل تھے کہ 77 سال میں بھی ان دونوں شعبوں میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک امید کی کرن جاگی کہ اب صوبے ترقی کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔ اسپتالوں میں اضافہ اور حالت زار بہتر ہوگی لیکن کوئی تسلی بخش اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ جو سرکاری اسپتال موجود ہیں وہ عملے کی قلت کا شکار ہیں اور جو عملہ موجود ہے وہ اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی سے دور دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ایک عام مریض کا علاج ممکن نہیں جب تک کہ اس کے پاس سیاسی حوالہ یا کوئی اور سفارش نہ ہو۔ بدعنوان عناصر نے اس شعبے کو بھی تباہی کے سپرد کردیا۔ اس تباہی کے ذمے دار سیاستدانوں کے ساتھ وہ دیگر لوگ بھی ہیں جو اس پیشہ سے وابستہ اور پالیسی ساز ہیں۔ کوئی سرکاری اسپتال ایسا نہیں جس کی انتظامیہ قابل تعریف ہو۔

حکومتوں نے صحت کے شعبے کو مشترکہ عوامی فلاح سمجھنے کے بجائے کاروبار سمجھ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ 1973 کے آئین یا بعد میں کی جانے والی ترامیم میں صحت کو بنیادی انسانی حق تسلیم نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولت کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ صحت کے آئین میں درج ہے صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے۔ پاکستان میں اب تک حکومت کی ترجیحات میں صحت کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمارے ہاں سرکاری نظامِ صحت میں بہت سی کمزوریاں ہیں، کہیں ڈاکٹر نہیں، کہیں دوائی نہیں، کہیں ٹیسٹ نہیں ہیں، سرکاری اسپتالوں میں بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اس لیے لوگ پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔

پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے کل خرچ کا 73 فی صد حصہ لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں جبکہ بقیہ 27 فی صد میں فلاحی ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں اور حکومت کا حصہ انتہائی کم ہے۔ پاکستان عالمی ادارہ صحت کارکردگی رپورٹ فروری 2023 کی جاری کردہ فہرست کے مطابق سنگا پور پہلے، جاپان دوسرے، جنوبی کوریہ تیسرے، تائیوان چوتھے، چائنا پانچویں، اسرائیل چھٹے، ناروے ساتویں، آئس لینڈ آٹھویں، سویڈن نویں اور سوئزرلینڈ دسویں جبکہ پاکستان 169 ممالک میں 73.37 پوائنٹ کے ساتھ 124 ویں، انڈیا 195 ممالک کی فہرست میں 145ویں، ایران 74.8 پوائنٹ کے ساتھ 94ویں پر ہے اور 1971 میں بننے والا ملک بنگلا دیش اپنے شہریوں کو اچھی صحت فراہم کرنے والے ممالک میں 94 ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال ہمارے پالیسی سازوں کے لیے غور طلب ہونی چاہیے۔ پاکستان میں عوامی صحت کے شعبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ 2021 کے اعدادو شمار کے مطاق ملک بھر میں میڈیکل کالجوں کی تعداد 117 بتائی جاتی ہے۔ ہر سال تقریباً 15000 سے زائد ڈاکٹر تیار کیے جاتے ہیں ان میں سے کم و بیش 40 فی صد ڈاکٹرز بیرون ملک جا کر اپنی پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ 2022 کے اعداد وشمار کے مطابق 3 لاکھ کے قریب ایم بی بی ایس ڈاکٹرز، 32 ہزار سے زائد دندان ساز، 121,245 نرسیں، 44,693 مڈوائفریز اور 22,408 ہیلتھ ورکرز ہیں۔

ملک میں ہر ایک ہزار کی آبادی کے واسطے آٹھ ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ یہ تناسب ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 24 اور مملکت متحدہ میں 25 ہے۔ شہری علاقوں یہ تناسب ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 36 ہے۔ یہ تناسب کا لمبے عرصے تک اسی طرح رہنے یا مزید کم ہونے کا امکان ہے، خاص کر طبی شعبے کے ماہرین کے بیرون ملک جاکر بس جانے کی وجہ سے، جیسا کہ اخباری اطلاعات سے پتا چلتا ہے۔ حکومت کی ان ہی عدم دلچسپی کی وجہ سے علاقوں میں جعلی کلینکس اور اتائی ڈاکٹروں کی روز بروز بڑھتی تعداد سرکاری اسپتالوں کی کمی اور پروفیشنل میل ڈاکٹروں کی قلت کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ اس ملک کو مسائل کے دلدل کی چکی میں پھنسا دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحت کے اس اہم ترین مسئلہ پر کیوں توجہ نہیں دی گئی۔ 2010 میں اس وقت کی حکومت نے آئین میں 18ویں ترمیم کے ذریعے جون 2011 میں وزارت قائم کی لیکن ملک میں صحت کی صورتحال کو بہتر کرنے میں غافل اور

صحت کے حق کو شامل کرنے کا موقع کھو دیا گیا نئی قانون سازی اور ہیلتھ کیئر کمیشن جیسے ریگولیٹری اداروں کو مزید با اختیار بنانے سے صورتحال میں بہتری کی امید ہے۔

چند روز قبل ایک ملاقات میں سی ای او سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن محمد احسن قوی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنے کے لیے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی نشستوں میں اضافہ کرنا ہوگا، جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ 80 فی صد لڑکیاں ازدواجی رشتوں سے منسلک اور باقی 20 فی صد میں سے بھی 10 فی صد بیرون ملک سدھار جاتی ہیں۔ اس بارے میں کسی پالیسی ساز یا ارباب اختیار نے نہیں سوچا کہ جب تک کوالفائیڈ ڈاکٹروں کی کمی رہے گی اس وقت تک شہری ان اتائی ڈاکٹروں اور مضر صحت کلینکس میں جانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت اتائی ڈاکٹرز ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں، 77 سال پرانا مرض ہے خاتمہ جلد ممکن نہیں۔ ان کے پیچھے طاقت ور لوگوں کا ہاتھ ہے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان افعال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری حکومتیں پالیسی ضرور مرتب کرتی ہیں لیکن اداروں کے آپسی روابط یا تعاون کو کہیں نہیں دیکھتی، جس سے تمام بوجھ ایک ہی ادارے پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جس وجہ سے ان مضر صحت کلینکس اور اتائی ڈاکٹروں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ مرض بہت پرانا ہو چکا ہے بظاہر اس کا خاتمہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ جب تک حکومتی مشینری شہریوں کو اچھی صحت کی فراہمی کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتی تمام تر دعوے اور کانفرنسیں بے سود ہوں گی دیگر صورت ہم 124ویں نمبر سے بھی اوپر جانے کے لیے تیار رہیں۔