فلسطین

616

امیر مینائی نے کہا ہے:
یہی جو سودا ہے مجھ حزیں کا، پتا کہاں کوئے نازنیں کا
غبار آسا نہیں کہیں کا، نہ آسماں کا نہ میں زمیں کا
کہاں کا نالہ، کہاں کا شَیون، سنائے قاتل ہے وقتِ مُردن
قلم ہوئی ہے بدن سے گردن، زباں پہ نعرہ ہے آفریں کا
قریب ہے یارو! روزِ محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا
عجب مُرقّع ہے باغِ دنیا، کہ جس کا صانع نہیں ہَویدا
ہزارہا صورتیں ہیں پیدا، پتا نہیں صورت آفریں کا
خدا سے جب تک نہ ہو شناسا، حریمِ دل کا ہے شوق بے جا
مکان کا تب پتا ملے گا، کہ کچھ یاد ہو پتا مکیں کا
کس آستانے پہ جا پڑا ہوں، کہاں الٰہی میں جِبہَہ سا ہوں
کہ سر نہ اٹھے ہزار چاہوں، یہ ربط ہے سجدہ و زمیں کا

الفاظ کے معانی: حزیں: غمگین٭ غبار آسا: غبار کی مثل، مانند٭ نالہ: فریاد، واویلا، شوروغل٭ شَیون: نوحہ، فریاد، ماتمِ غم٭ وقتِ مُردن: موت کے وقت٭ گردن قلم ہونا: گردن کٹ جانا٭ آفرین: شاباش، کلمۂ تحسین،٭ صورت آفریں: صورتوں کا بنانے والا٭ مُرَقَّع: مرمت شدہ، جس میں پیوند لگے ہوں، تصویروں کی کتاب، البم٭ ہَویدا: ظاہر٭ جِبہَہ سا: ماتھا رگڑنے والا، منّت سماجت کرنے والا٭ امیر مینائی کے یہ اشعار تصوف اور عقائد کے موضوع پر ہیں، لیکن اس میں ایک شعر فلسطین کی موجودہ صورتِ حال کی تصویر پیش کر رہا ہے:

قریب ہے یارو! روزِ محشر، چھُپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

مفہومی ترجمہ: ’’دوستو! وہ وقت دور نہیں جب قیامت کے دن مظلوم مقتولین کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش ہوگا اور اگر تلوار کی زبان خاموش رہے گی، یعنی قاتل اعترافِ جرم نہیں کرے گا تو مقتول کا بہتا ہوا خون قتلِ ناحق کی شہادت دے گا‘‘، یہی بات احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہے:

نبیؐ نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) مقتول اپنے قاتل کو لے کر (اللہ تعالیٰ کی عدالت میں) حاضر ہوگا اور قاتل کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے (تازہ) خون بہہ رہا ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فریاد کرے گا: اے میرے ربّ! اس نے مجھے (ظلماً) قتل کیا، یہاں تک کہ اُسے عرش کے قریب لے آئے گا، راوی کہتے ہیں: لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’اور جو کوئی قصداً کسی مؤمن کو (ناحق) قتل کرے گا، تو اُس کی سزا جہنم ہے، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا اور وہ اس پر لعنت کرے گا اور اللہ نے اُس کے لیے (آخرت میں) عذابِ عظیم تیار کر رکھا ہے‘‘، (النسآء: 93) سیدنا ابن عباس نے فرمایا: نہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ تبدیل ہوئی ہے، تو اس کی توبہ کیسے قبول ہوگی‘‘، (ترمذی) یعنی جب تک مقتول معاف نہ کرے یا قاتل اپنے آپ کو قصاص کے لیے نہ پیش کرے یا دیت پر صلح نہ ہو تو قتلِ ناحق کی توبہ قبول نہیں ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’(مظلوم) مقتول قیامت کے دن اپنے قاتل کو لے کر (اللہ تعالیٰ کی عدالت میں) حاضر ہوگا اور عرض کرے گا: (اے اللہ!) اس سے پوچھیے! اس نے مجھے کس جرم میں (ناحق) قتل کیا، تو قاتل کہے گا: میں نے اسے فلاں بادشاہ کے عہدِ اقتدار میں قتل کیا‘‘۔ (نسائی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سربراہِ حکومت یا جس بادشاہ کی سلطنت میں ناحق قتل ہوا ہو، اُس سے بھی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں باز پرس ہوگی۔

اپنے حقِ وطن اور حقوقِ انسانی کو سلب کرنے والی اسرائیلی حکومت کے خلاف مظلوم فلسطینیوں نے آواز اٹھائی، احتجاج کیا، اپنی استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف مزاحمت کی، اس کے جواب میں اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے کہ اکیسویں صدی میں چشمِ فلک نے اس طرح کے ابلیسی مناظر اللہ کی زمین پر نہیں دیکھے، کسی تمیز کے بغیر بوڑھوں، عورتوں، بچوں، مریضوں اور عام شہریوں کو قتل کردیا گیا، ان کی آبادیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔ غزہ کی پٹی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے اور شہداء، زخمیوں اور مظلومین کی حقیقی اور قطعی تعداد کسی کو معلوم نہیں ہے، بس قیاسات ہیں، تخمینے ہیں اور اندازے ہیں۔ تاحال کسی کو نہیں معلوم کہ بمباری کے نتیجے میں ملبے کا ڈھیر بنی عمارات کے نیچے کتنے انسان موت کی آغوش سے ہمکنار ہوگئے اور سسکیاں لیتے لیتے خالقِ حقیقی سے جاملے، جامِ شہادت نوش کیا، عورتیں بیوہ ہوگئیں، بچے یاتو شہید کردیے گئے یا اپنے سرپرستوں سے محروم ہوگئے۔ جدید دنیا کے جنگی قوانین میں اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا، مگر صہیونی اسرائیلیوں نے تمام مسلّمہ عالمی قوانین اور روایات کو رعونت کے ساتھ پامال کردیا اور عالمی برادری تماشا دیکھتی رہ گئی۔

احادیث مبارکہ میں ہے: ’’رسول اللہؐ نے (مجاہدین کو جہاد پر رخصت کرتے وقت) فرمایا: ستم لوگ اللہ کے نام سے، اللہ کی تائید اور توفیق کے ساتھ، اللہ کے رسول کے دین پر جاؤ اور ضعیف العمر قریب المرگ بوڑھوں، بچوں، چھوٹے لڑکوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور غنیمت میں خیانت نہ کرنا، غنیمت کے مال کو اکٹھا کر لینا، صلح کرنا اور نیکی کرنا، اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘، (ابودائود) ’’اسود بن سَرِیع بیان کرتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں سے قتال کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے بعض بچوں کو بھی قتل کر ڈالا، یہ بات نبی کریمؐ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا، آپؐ نے تکرار کے ساتھ فرمایا: خبردار! بچوں کو ہرگز قتل نہ کرو، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں، کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں، آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے بہترین لوگ بھی مشرکوں کی اولاد نہیں تھے‘‘، (اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلنَّسَائِی) نبیؐ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں احسان کا حکم فرمایا ہے، پس جب تم (شریعت کے حکم کے مطابق) کسی کو قتل کرو تو اُس میں بھی احسان سے کام لو اور جب تم (کسی حلال جانور کو) ذبح کرو تو اس میں بھی احسان سے کام لو، لازم ہے کہ تم میں سے کوئی (جانور کو ذبح کرتے وقت) اپنی چھری کو تیز کرے تاکہ جان نکلنے میں جانور کوتکلیف کم سے کم ہو‘‘، (اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلنَّسَائِی) نوٹ: احسان کے معنی ہیں: ’’کسی کام کو کمالِ حُسن وخوبی کے ساتھ انجام دینا‘‘۔

شمس الائمہ علامہ سَرَخْسِی لکھتے ہیں: ’’نبیؐ نے فرمایا: ’’بچوں کو قتل نہ کرو‘‘، نبیؐ کا یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ بچوں کا قتل جائز نہیں (خاص طور پر) جبکہ وہ قتال میں شریک نہ ہوں، سیدنا ابوبکر صدیق نے یزید بن ابی سفیان کو لشکر کے ساتھ بھیجتے ہوئے وصیت فرمائی: کسی معمر شخص اور کسی کمزور بچے کو قتل نہ کرنا‘‘۔ (المبسوط)

سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں: ’’نبیؐ جب مسلمانوں کا لشکر مشرکوں کی طرف روانہ کرتے تو فرماتے: کسی بچے، عورت اور کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، جنگ میںحائل درختوں کے سوا نہ کسی درخت کو کاٹنا، نہ کسی انسان اور جانور کا مُثلہ کرنا، نہ بدعہدی کرنا اور نہ چوری اور خیانت کرنا‘‘۔

(اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلْبَیْہَقی) واضح رہے: مُثلہ کے معنی ہیں: اعضاء کو کاٹ کر صورت کو بگاڑنا۔ جنگ کے بارے میں یہ اسلام کی واضح تعلیمات ہیں، عالمی سطح پر جنگی قوانین تو بعد میں بنے، اسلام نے 1400سال قبل ہی ان قوانین کو نافذ کردیا تھا۔

امریکا اور مغربی ممالک میں بڑے بڑے جلوس بھی نکلے، احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، انسانیت کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، لیکن امریکا اپنے حلیفوں سمیت بدستور اسرائیل کا پشتیبان بنا ہوا ہے، اپنے حقِ وطن کے لیے جِدُّوجُہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے، جنگی سازو سامان اور نقد کی صورت میں اسرائیل کی مدد کررہا ہے، امریکی ایوانِ نمائندگان نے 1430 کروڑ ڈالر اسرائیل کی امداد کے لیے منظور کیے، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو مفلوج اور بے اثر کردیا، یہ ظلم کی انتہا ہے۔

مسیحیوں کے سب سے بڑے فرقے کیتھولک کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، ہماری کیتھولک، پروٹیسٹنٹ، آرتھوڈاکس اور دیگر مسیحی فرقوں کی مذہبی قیادت سے اپیل ہے کہ وہ سیدنا مسیحؑ کی تعلیمات کے مطابق مظلوم کا ساتھ دیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج بھی ہوئے ہیں، جلوس بھی نکالے گئے، احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے، لیکن اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، وہ ٹَس سے مَس نہیںہوا، بلکہ اُس نے مظالم کا سلسلہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔

پوپ فرانسس سے مطالبہ ہے کہ غزہ کی پٹی کی ساری تباہ شدہ عمارتوں، بستیوں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر فنڈ قائم کریں اور مسیحیوں سے اپیل کریں کہ وہ اپنی حکومتوں کی سرپرستی میں ہونے والے مظالم کا مداوا کریں۔ ہمیں افسوس ہے کہ او آئی سی اور عرب لیگ کا ریاض میں جو اجلاس منعقد ہوا، اس کے نتائج انتہائی مایوس کن نکلے، اس کا ماحصل ایک بے نتیجہ اور بے جان سی قرارداد تھی، تیل پیدا کرنے والے ممالک نے فلسطینیوں کی بحالی کے لیے کسی امدادی پیکیج کا اعلان کیا، نہ اسرائیل اور اس کے سرپرست ممالک کے سیاسی، سفارتی اور اقتصادی وتجارتی بائیکاٹ کا اعلان کیا، بس ایک بے مقصد سی مشق تھی جو بے نتیجہ ختم ہوگئی اور امت کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیاگیا۔

اس سے پہلے ہم آفت زدہ اور جنگ زدہ ممالک میں ’’ڈاکٹرز ماورائے سرحدات‘‘ کی کوئی نہ کوئی سرگرمی اور کارروائی عالمی میڈیا پر رپورٹ ہوتے دیکھتے تھے، لیکن صد افسوس! فلسطین کے بارے میں ایسی کوئی مؤثر سرگرمی نظر نہیں آئی۔ امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی ہمیشہ سب سے بڑھ چڑھ کر اسرائیل کی حامی رہی ہے، 2024 اُن کے ہاں انتخابات کا سال ہے، اس لیے مسئلۂ فلسطین کے فوری حل کے لیے کسی بڑی اور نمایاں پیش رفت کا کوئی فوری امکان نہیں ہے۔ بظاہر امریکی صدر بائیڈن دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے نہ اسرائیل پر دبائو ڈالتے ہیں اور نہ اقوامِ متحدہ کے تحت کوئی مؤثر اقدامات کرتے ہیں۔ حماس کی حالیہ مزاحمت نے کم از کم یہ ثابت کیا ہے کہ مسئلۂ فلسطین زندہ ہے، اسے ہمیشہ کے لیے دبایا نہیں جاسکتا اور اس کا کوئی قابلِ قبول اور پائیدار حل تلاش کیے بغیر اسرائیل کو بھی دیرپا امن اور چین نصیب نہیں ہوگا۔ بظاہر کئی مسلم ممالک اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی وتجارتی تعلقات استوار کرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ حماس کی قربانیوں نے سرِدست ان کے اس ایجنڈے کو ناکام بنادیا ہے، مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے۔