حماس اسرائیل معاہدہ، غزہ کا محافظ کون؟

700

سب سے پہلے اس بات کا ذکر ہو جائے کہ فلسطینیوں کے سب قریبی پڑوسی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کیا کہہ رہے ہیں۔ بریکس سربراہ کانفرنس میں محمد بن سلمان کا کہناتھا کہ ’1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے اس کے فوری بعد سعودی عرب کی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا جس کی صدارت بادشاہ سلمان بن عبدالعزید نے کی جس میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان ہوا کہ فوری جنگ بندی کی جائے اور اس بارے میں امریکی صدر بائیڈن سر گرم ہو گئے۔ العربیہ نیٹ کے مطابق سعودی ولی عہد نے آن لائن بریکس سربراہ کانفرنس کے دوران اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جامع اور ٹھوس امن عمل شروع کرنے کا مطالبہ کرتا ہے‘۔ ورچول کانفرنس سے خطاب میں سعودی ولی عہد کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری کانفرنس ایسے وقت میں ہورہی ہے جب غزہ بہت مشکل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر غزہ میں اسرائیلی حملوں کو پوری قوت سے مسترد کرتے ہیں‘۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ کی پٹی کے لیے فوری طور پر امدادی سامان بھجوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ ’تمام ممالک اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنا بند کردیں‘۔ سعودی ولی عہد نے سخت لہجے میں کہا کہ ’غزہ میں شہریوں، بے قصور انسانوں، صحت اداروں اور عبادت گھروں میں وحشیانہ جرائم ہورہے ہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ انسانی المیے کو بند کرانے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی جائے‘۔ سعودی ولی عہد نے کہا کہ ’سعودی عرب کا دوٹوک اور غیر متزلزل موقف یہ ہے کہ فلسطین میں امن و استحکام کے قیام کا واحد راستہ فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لیے دو ریاستی حل اور 1967 کی سرحدوں کے دائرے میں خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے‘۔ بریکس ورچول سربراہ کانفرنس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین، مصر، روس، برازیل، انڈیا، جنوبی افریقا، ارجنٹائن، ایتھوپیا اور ایران شریک ہیں۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی شامل ہیں۔ خیال رہے شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ جنگ شروع ہونے کے فوری بعد عام شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے اور غزہ کی پٹی میں امداد کی فوری داخلے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ بیان بازی والی سر توڑ کوشش عالم اسلام کے تمام سربراہان بھی کر چکے ہیں لیکن یہ حقیقت تاریخ کے اوراق میں چُھپی نہیں چھپی ہوئی ہے کہ طاقت کے بغیر سر توڑ کوشش سے صرف سر ٹوٹتا ہے اور یہی سب عالم اسلام کے حکمرانوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے اور اسی سر توڑ کوشش کے نتیجے میں 6ہزار فلسطینی بچے ٹوٹے سر دھڑ کے ساتھ جنت میں پہنچا دیے گئے۔

قطر اور امریکی اخبارات یہ اطلاع دے رہے کہ فلسطینی مجاہد تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایک ’فائربندی معاہدے‘ کے قریب ہے اور ان سطور کی شائع ہونے تک معاہدے پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہو گا، یہ جنگ بندی اسرائیل فلسطین اور لبنان میں ایک ساتھ ہوگی۔ اس سلسلے میں اسرئیل امریکا اور اس کے مغربی عسکر ی اتحادیوں کا 7اکتوبر سے 2023ء سے یہی کہنا تھا کہ وہ حماس سے مذاکرات نہیں کریں گے اور جنگ بندی کسی صورت نہیں ہوگی لیکن حماس کا کہنا ہے کہ عارضی معاہدے کے لیے بات چیت قطر کی ثالثی میں ہو رہی ہے۔ اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں 12سو سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے جب کہ دو سو چالیس کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے غزہ میں حماس کے خلاف جاری اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 15 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اسرائیلیوں کی ہلاکت نے امریکا اور اسرائیل عسکری اتحادی 7اکتوبر سے یہی کہہ رہے ہیں وہ حماس کے پاس یرغمال افراد کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اور اسی سلسلے میں الشفا اسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے سان فرانسسکو میںکہا تھا کہ الشفا اسپتال کے نیچے حماس کا ہیڈکواٹر ہے اور اسپتال سے اسلحہ پکڑا گیا ہے لیکن یہ سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ اسرائیل امریکا پر یہ واضح نہیں ہے کہ حماس نے ان یرغمالیوں کو کہاں چھپا رکھا ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کار گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمالی بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل، امریکا، جرمنی اور دوسرے مسلم اور غیر مسلم ممالک ’’غزہ کا محافظ‘‘ کے نام پر حماس کو غزہ سے نکالنے اور وہاں اقوام متحدہ اور دیگر عرب ممالک کی فوج رکھنے کی باتیں بھی کررہے ہیں، غزہ کو اسرائیل قبضے میں دینے کے عالمی سہولت کاروںکا کھیل عروج پر پہنچ چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے کہا ہے کہ غزہ کی حفاظت کی ذمے داری اقوام متحدہ پر نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور غزہ کا انتظام حماس سے لے لیے جانے کے بعد اقوام متحدہ امریکا اور عرب ریاستوں کو اس عبوری دور میں حمایت فراہم کرے گا تاہم وہ خود اس علاقے کا انتظام نہیں سنبھالے گا۔ گوٹیریس کا مزید کہنا ہے، ’’اس عبوری دور کے لیے سب کو ملک کر کام کرنا ہو گا تاکہ فلسطینی انتظامیہ کو مضبوط بنایا جائے۔ وہ غزہ میں بھی اپنی ذمے داری نبھائے اور یوں اس مسئلے کا دو ریاستی حل ممکن ہو سکے‘‘۔

یہ بات اہم ہے کہ حماس، امریکا اور یورپی یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے اور معاہدہ بھی اسی سے ہورہا ہے۔ حماس نے 2007 میں انتخابات میں فتح کے بعد فلسطینی انتظامیہ کو غزہ سے طاقت کے ذریعے بے دخل کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل میں اسرائیل کی سلامتی کا ضامن امریکا ہے، تاہم فلسطین کی سلامتی کی ذمے داری خطے کے عرب ممالک کو لینا چاہیے۔ ان عرب ملکوں میں سب سے پہلا نام یروشلم میں موجود فلسطینی اتھارٹی ہے جس میں اسرائیل اور امریکا کے اتحاد ی محمود عباس کی حکمرانی ہے۔ مغربی ممالک میں ماضی میں یہودیوںکا قاتل جرمنی بھی بہت سرگرم ہے۔

جرمن وزیرخارجہ انالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے ’بین الاقوامی ذمے داری‘ کی ضرورت ہے۔ بیئربوک نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں غزہ میں بین الاقوامی ذمے داری کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے جرمنی امریکا اور بعض ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، تاکہ غزہ کے عوام کو ایسے محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، جہاں وہ مارے نہ جائیں اور جہاں انہیں صاف پانی اور طبی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو۔ ایسا لگ رہا ہے 8اکتوبر سے اب تک غزہ کے عوام پر اسرائیل پھولوں کی بارش کر رہا ہے اور موصوف غزہ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

جرمنی سے ہمیشہ ہی نہ جانے کیوں ’’مضحکہ خیز‘‘ خبروں کا انبار لگا رہتا ہے۔ جرمن وزیرخارجہ انالینا بیئربوک نے کہا کہ اس تنازعے کے آغاز پر اپنے دورہ اسرائیل میں انہوں نے اسرائیلی حکومت پر واضح کیا تھا کہ غزہ کے شہریوں کی زندگی کا تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے کہا کہ تھا اسرائیل کی لڑائی دہشت گرد تنظیم حماس کے خلاف ہے جو اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتی ہے، غزہ کے عام شہریوں، معصوم خواتین اور بچوں کے خلاف نہیں‘‘۔ ان کی ہر صورت حفاظت کرتے ہوئے بمباری صرف حماس کے عسکری اڈوں پر کی جائے گی لیکن جرمن وزیرخارجہ انالینا بیئربوک کی اب اتنی حمت نہیں ہے وہ اسرائیل سے یہ معلوم کر سکیں یہ 45دنوں کے دوران فلسطینیوں کا قتل عام اسرائیل نے کیوں کیا ہے؟