فلسطین :سوشل میڈیا پر عالمی جنگ

400

عالمی جنگ مگر آن لائن

”اسرائیل و حماس کے درمیان جاری تنازع تیزی سے ایک آن لائن جنگ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے“۔ نیویارک ٹائمز نے اس سرخی کے ساتھ جب یہ رپورٹ شائع کی تو اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ صحافتی دنیا میں سرخی لگانا، سرخی نکالنا ایک بڑا کام ہے۔ اخبارات میں تو اس کام کے لیے الگ سے کاپی ایڈیٹر رکھے جاتے ہیں جن کا کام ہی ایسی سرخی نکالنا ہوتا ہے جو قاری کو متوجہ کرسکے۔ سوشل میڈیا جو کہ خود ایک اٹینشن اکانومی کاحصہ ہے اُس میں تو لازمی ہے کہ آپ لوگوں کی توجہ حاصل کریں، ورنہ تو اس کا فائدہ ہی نہیں۔ اب نیویارک ٹائمز جیسا عالمی سطح کا اخبار ایسی سرخی لگائے گا تو پڑھی کیوں نہ جائے گی! جبکہ ہم جانتے بھی ہوں کہ اس کا ’ورلڈ وار‘ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو ’آن لائن‘ ہو، وہ ’ورلڈ وار‘ ہوتی ہی نہیں۔

ہم آج اس اہم رپورٹ کے اہم حصے مختلف ہیڈنگز کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کریں گے، جو بہرحال ہر مسلمان کے لیے، نیٹیزن کے لیے اور ’کی بورڈ وارئیر‘ سمیت ’سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ‘ کے لیے تو حوصلہ افزا ہے (مگر اس کا مطلب یہ پھر بھی نہیں ہوگا کہ آپ اس کی آڑ میں سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال شروع کردیں)۔ میرا چونکہ موضوع ہی سوشل میڈیا ہے اس لیے بھی اس رپورٹ کا انتخاب کرنا ضروری تھا۔ یہ رپورٹ نیویارک ٹائمز کے دو بڑے رپورٹرز نے تیار کی ہے، جس میں ایک تو ’شیرا فرینکل‘ ہیں جو سان فرانسسکو میں مقیم ایک ایوارڈ یافتہ ٹیکنالوجی رپورٹر ہیں، جبکہ دوسرے اسٹیون لی مائیرز ہیں، یہ بھی کئی کتب کے مصنف اور سینئر صحافی ہیں جو کئی ممالک میں رپورٹنگ کرچکے ہیں۔

رپورٹ کے ساتھ ایک بڑی خوبصورت تصویر منسلک کی گئی ہے جو ایران کے دارالحکومت تہران کی ولی عصر اسکوائر بلڈنگ پر آویزاں ہے۔ اس تصویر میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے قومی پرچم اٹھائے یروشلم میں ڈوم آف دی راک کی طرف جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اور اس عمل کو سیلِ غیرت کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب غیرت کا کارواں یا غیرت کا سیلاب ہے۔

ایران، روس اور چین کیوں؟

رپورٹ کےمطابق ”ایران، روس اور کچھ حد تک چین نے حماس کی حمایت کے لیے سرکاری میڈیا اور دنیا کے بڑے سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کا خوب استعمال کرکے اسرائیل کو کمزور کیا ہے، ساتھ ساتھ اسرائیل کے اہم اتحادی امریکا کی بھی اس میں توہین کی ہے۔“ اُن کی تحقیق کے مطابق ”لبنان، شام اور عراق میں ایران کے ’پراکسی‘ بھی اس آن لائن لڑائی میں شامل ہوچکے ہیں القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسے انتہا پسند گروپوں کے ساتھ، جو پہلے حماس سے متصادم تھے۔ سرکاری حکام اور آزاد محققین کے مطابق آن لائن پروپیگنڈے اور غلط معلومات کا سیلاب اس سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا کی جغرافیائی سیاسی تقسیم کا عکاس ہے۔“

تل ابیب میں ایک سوشل میڈیا انٹیلی جنس کمپنی سائبرا کے نائب صدر مینڈیلسون نے کہا ”اس جنگی مواد کو دنیا بھر میں لاکھوں، کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں، اور یہ سارا عمل جنگ کو اسی طرح متاثر کررہا ہے جیسا کرنا چاہیے، یعنی زمین پر کسی بھی دوسرے حربے کی طرح کارآمدہے۔“ جب سے حماس نے 7 اکتوبر کو غزہ سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے تب سے اسرائیلی ایجنسی سائبرا نے کم از کم 40,000 باٹس یا غیر مستند اکاؤنٹس کو آن لائن دستاویز کرلیا ہے۔

اُن کے مطابق ”یہ سارا سوشل میڈیا مواد جذباتی الزامات، سیاسی طور پر جانب دار اور اکثر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے جو لوگوں میں غصے اور تشدد کو بڑھا رہا ہے، جس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ یہ ایک وسیع تر تنازعے کو ہوا دے سکتا ہے۔ ایران نے اگرچہ حماس کے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن اس کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے غزہ میں اسرائیلی فوجوں کے حملے جاری رکھنے کی صورت میں ”متعدد محاذوں“ پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔“

انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک ڈائیلاگ میں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ ایاد نے کہا ”یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہر کوئی اس میں شامل ہے“۔ لندن میں ایک غیر منافع بخش تحقیقی ادارے نے گزشتہ ہفتے ایران، روس اور چین کی طرف سے اثر رسوخ کی مہمات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ امریکی اور دیگر سرکاری حکام اور ماہرین نے کہا کہ مہمات مربوط دکھائی نہیں دیتیں، حالانکہ انہوں نے تعاون کو مسترد نہیں کیا۔ اگرچہ ایران، روس اور چین اسرائیل پر حماس کی حمایت میں مختلف محرکات رکھتے ہیں، لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد سے انہوں نے ایک ہی طرح کے موضوعات کو آگے بڑھایا ہے۔ حکام اور ماہرین نے کہا کہ وہ محض اخلاقی مدد فراہم نہیں کررہے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کو وسعت دینے اور متعدد زبانوں میں متعدد پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات کی عالمی رسائی کو بڑھانے کے لیے ظاہری اور خفیہ معلوماتی مہمیں بھی چلا رہے ہیں۔

پوسٹوں کا بھرم

مثال کے طور پر عالمی روسی ٹیلی ویژن نیٹ ورک RT کے ہسپانوی چینل نے حال ہی میں ایرانی صدر کے ایک بیان کو کئی بار پوسٹ کیا جس میں 17 اکتوبر کو غزہ کے اسپتال میں ہونے والے دھماکے کو اسرائیلی جنگی جرم قرار دیا گیا، حالانکہ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اُن کے تجزیہ کاروں نے اس کو اسرائیل پر نہیں ڈالا۔ یہی نہیں ایک اور روسی اوورسیز نیوز آؤٹ لیٹ ’سپوتنک انڈیا‘ نے ایک ”فوجی ماہر“ کا حوالہ دیتے ہوئے بغیر ثبوت کے کہا کہ امریکا نے وہ بم فراہم کیا جس نے اسپتال کو تباہ کردیا۔ اس طرح کی پوسٹس نے دسیوں ہزار آراء اور مقبولیت حاصل کی ہے۔

رپورٹ نے تسلیم کیا کہ ”7 اکتوبر کے اپنے حملے کے ابتدائی گھنٹوں میں حماس نے اسلامک اسٹیٹ جیسے گروپوں سے مل کر ایک وسیع، نفیس میڈیا حکمت عملی استعمال کی ہے۔ سائبرا کے محققین کے مطابق اس کے کارندے پاکستان جیسی جگہوں پر شروع ہونے والے بوٹ اکاؤنٹس کے ذریعے گرافک امیجری پھیلاتے ہیں۔ فیس بک وغیرہ کی حماس پر پابندیوں کو بھی سائڈ میں ڈالتے ہیں اور بلا خوف پوسٹیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ X پر ایک پروفائل جس میں ایک غیر مستند اکاؤنٹ کی خصوصیات ہیں @RebelTaha نے تنازعے کے پہلے 2دنوں میں 616 بار پوسٹیں کیں، حالانکہ اس میں پہلے زیادہ تر کرکٹ کے بارے میں مواد شامل تھا۔ ایک پوسٹ میں ایک کارٹون دکھایا گیا تھا جس میں اسرائیل کے دہرے معیار کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ کس طرح اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے طور پر پیش کیا گیا جب کہ یوکرین کی روس کے خلاف جنگ اپنے دفاع میں تھی۔

ایک جھوٹ پر گرفت

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے گلوبل انگیجمنٹ سینٹر کے سربراہ جیمز پی روبن نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ”ہم آمرانہ ممالک کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ معلوماتی جنگ میں ہیں۔“

(کوئی ہے جو ان جاہلوں کو بتائے، سمجھائے کہ فلسطین بھی جمہوری ملک، حماس بھی جمہوری ملک، (ناجائز) اسرائیل بھی جمہوری ملک، امریکا بھی جمہوری ملک، ایران بھی جمہوری ملک، روس بھی جمہوری ملک… تو یہ کون سے آمرانہ ممالک ہیں جن سے یہ جنگ کا رونا رو رہا ہے؟ یہ درحقیقت اُس ”لبرل نظریے“ کا قبرستان ہے جس نے دنیا کو امن دینے کے لیے یہ نظریہ پیش کیا کہ ’’اگر دنیا میں سب ممالک میں جمہوریت آجائے تو ایک دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے‘‘۔ ہماری جامعات میں آج بھی یہ ’ڈیموکریٹک پیس تھیوری‘ کے نام سے پڑھائی جاتی ہے، اس نظریے کے بانی مغربی مفکرین نے جھوٹ کی بنیاد پر ایسے نظریے کھڑے کیے جن کی کوئی حقیقت اس روئے زمین پر نہیں۔ خیر رپورٹ پر واپس چلتے ہیں، یہ تو امریکی عہدیدار کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لیے آپ کو سمجھانا تھا)

نیٹ ورک کیسے بنتا ہے؟

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ’’وہ حکام اور ماہرین جو سوشل میڈیا پر ایسی غلط معلومات اور انتہا پسندی پھیلانے کی پوسٹوں کا سراغ لگاتے ہیں، اس بات سے متاثر اور حیران ہیں کہ پابندیوں کے باوجود حماس کا پیغام کتنی جلدی اور وسیع پیمانے پر آن لائن پھیل جاتا ہے! اس سے اُن کو اسرائیل-فلسطین مسئلے کی جذباتی شدت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ یہی نہیں، وہ اس پر بھی حیران ہیں کہ جنگ کے ماحول میں حماس والے اس وڈیو گرافی کا، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا، کیمروں کے ذریعے حقیقی وقت میں قید کیے گئے مناظر کا پورا شعور رکھتے ہیں۔ اسے بوٹس کے وسیع نیٹ ورکس کے ذریعے بھی فروغ دیتے ہیں، اس کے فوراً بعد ایران، روس اور چین میں حکومتوں اور سرکاری میڈیا سے تعلق رکھنے والے سرکاری اکاؤنٹس ان وڈیوز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بڑھاتے ہیں۔

اسرائیلی ایجنسی نے پوسٹوں پر تحقیق کرکے بتایا کہ 7 اکتوبر کے بعد ایک ہی دن میں فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ایکس پر تقریباً ہر نئے بننے والے چار میں سے ایک اکاؤنٹ… تنازعے کے بارے میں پوسٹ کرنے والا… جعلی معلوم ہوتا ہے۔ کمپنی کے محققین نے اتنے بڑے پیمانے پر چھ مربوط مہمات کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں اقوام یا بڑے غیر ریاستی اداکاروں کی بھی شمولیت ہے۔

ایران بھی

انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک ڈائیلاگ کی رپورٹ میں گزشتہ ہفتے فیس بک اور ایکس پر ایرانی اکاؤنٹس کا ذکر کیا گیا تھا جو ”خاص طور پر نقصان دہ مواد پھیلا رہے ہیں جس میں جنگی جرائم اور اسرائیلی شہریوں کے خلاف تشدد کی تعریف اور اسرائیل کے خلاف مزید حملوں کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔“

اگرچہ ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس حملے میں ملک کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن اکاؤنٹس نے انہیں اسرائیل اور نوآبادیاتی مغربی طاقتوں کے خلاف ”پان اسلامی مزاحمت“ کے رہنما کے طور پر دکھایا ہے۔ ایرانی تسنیم نیوز ایجنسی کی طرف سے X پر پوسٹس کی ایک سیریز نے کہا کہ امریکہ ”جرائم“ کا ذمہ دار ہے، اور اس نے زخمی فلسطینیوں کی ویڈیو دکھائی۔ ٹیلی گرام پر اکاؤنٹس نے جھوٹا یا غیر تصدیق شدہ مواد بھی پھیلایا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر ڈیبنک شدہ اکاؤنٹ بھی شامل ہے جس میں CNN نے ٹیلی ویژن کے عملے پر حملہ کرنے کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔

سائبرا نے عراق سے X پر عربی میں ایک آن لائن مہم کی بھی نشاندہی کی، جو واضح طور پر ایران کے حمایت یافتہ مسلم نیم فوجی گروپوں کی طرف سے ہے، بشمول مقتدیٰ الصدر کی تحریک۔ اکاؤنٹس کے نیٹ ورک نے #AmericasponsorIsraelTerrorism ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے ایک جیسے پیغامات اور تصاویر پوسٹ کیں۔ سائبرا کے مطابق وہ پوسٹس 18 اور 19 اکتوبر کو عروج پر تھیں، جن میں 6,000 سے زیادہ شیئرز شامل تھے، اور یہ کوئی 10 ملین ناظرین تک پہنچیں۔

جدید اسرائیل کی ٹیکنالوجی کی ناکامی کا اعتراف

اسرائیل کے سب سے بڑے حلیف کے سب سے بڑے اخبار کے بڑے رپورٹرز نے صاف لکھا ہے کہ ’’اسرائیل، جس کے پاس اپنے جدید ترین ٹیکنالوجی آپریشنز موجود ہیں، اس سب کے باوجود اس نے غیر متوقع طور پر اپنے آپ کو دفاعی انداز میں پایا۔‘‘

Israel, which has its own sophisticated information operations, has found itself unexpectedly on the defensive.

انٹیلی جنس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیلی حکومت کے2اہلکاروں نے بتایا کہ ’’اسرائیل اپنی جانب سے ایران اور دیگر ممالک سے سوشل میڈیا پر بوٹ کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا ہے کہ یہ والی مہم پہلے سے کہیں بڑی اور بے قابو ہے۔“

چین کا روسی باجا… امریکی مفادات کو خطرہ

رپورٹ کے مطابق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے گلوبل انگیجمنٹ سینٹر نے کہا ہے کہ ’’روس اور چین، جو حالیہ برسوں میں تیزی سے قریب تر ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ کا فائدہ اُٹھا کر امریکا کو اسرائیل کی طرح کمزور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘

حماس کے اسرائیل پر حملہ کرنے سے ایک ہفتہ قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ چین اپنے عالمی نظریے کے پیچھے عالمی رائے کو متاثر کرنے کے لیے ”فریب اور زبردستی کے طریقے“ استعمال کررہا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے چین نے خود کو ایک غیرجانب دار امن ساز کے طور پر پیش کیا ہے، جب کہ اس کے حکام نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو ایک متلاشی جنگجو کے طور پر پیش کیا ہے جسے ”مشرق وسطیٰ میں تزویراتی ناکامی“ کا سامنا کرنا پڑا۔

روسی حکام اور سرکاری میڈیا کے اکاؤنٹس نے بھی ان جذبات کو شیئر کیا ہے۔ ٹیلی گرام پر کریملن کے حامی متعدد اکاؤنٹس 7 اکتوبر کے بعد اچانک یوکرین کی جنگ کے بارے میں مواد سے صرف اسرائیل پر پوسٹ کرنے کے لیے منتقل ہوگئے۔