بیت المقدس کی پکار

607

پاکستان قائم ہوا تو کراچی پہلا دارلحکومت بنا‘ پھر ایوب خان کو نیا شہر بسانے کے عشق نے آن دبوچا‘ فیصلہ یہی تھا یہ بابوئوں کا شہر ہوگا‘ یہاں ہر باسی سرکار کا بے تیغ سپاہی ہوگا‘ وہی حق ہوگا جو سرکار کہے گی‘ یہ شہر کسی حد تک آج بھی بابوئوں کا شہر ہی ہے‘ یہاں کوئی ایسی آواز سر نہیں اٹھا سکتی جس سے بابوئوں کو پریشانی لاحق ہوجائے‘ جماعت اسلامی کے غزہ مارچ کو روکنے کی کوشش کا وقعہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا‘ یہ تو وہ شہر ہے جہاں کی پولیس ماضی میں امریکی سفارت خانے جانے والوں کو گولی کا نشانہ بنا چکی ہے‘ عامر چیمہ کی شہادت پر نکلنے والی ریلی لہولہان کی جاچکی ہے‘ کل جماعتی حریت کانفرنس کی لیڈر شپ کو بھارت کے سفارت خانے تک جانے کی اجازت نہیں ملتی‘ بہر حال ملک میں سب کچھ ہورہا ہے‘ اگر نہیں ہورہا تو غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی ملکی سیاست اہم سہی مگر فلسطین میں قتل عام پاکستان کی سیاست کے مقابلے زیادہ اور فوری توجہ کا مستحق ہے‘ یہ کوئی جانتا ہے نہ اہمیت دینے کو تیار ہے ممتاز مصنف نعیم صدیقی مرحوم نے 1967ء‘ عرب اسرائیل جنگ کے دنوں ایک زرمیہ لکھا تھا ’’یروشلم‘ یروشلم‘ تسلط یہود یاں رہے نہیں کبھی نہیں، یہ ظلم ایسا‘ ظلم ہے کہ جس کی تاب ہی نہیں‘ وہ زمانہ گزر گیا‘ آج پھر صلاح الدین ایوبی کا علم‘ یروشلم یروشلم‘‘ ہر زمانے کا اپنا صلاح الدین ہے اور حجاج بن یوسف بھی جسے پکارا گیا اور لبیک کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
آج دنیا کے نقشے پر قائم 57مسلم ممالک ہیں اور دو ارب مسلمان اور ان کے حکمران‘ مگر افغانستان کے بعد‘ فلسطین اور کشمیر میں جاری کشمکش‘ سیاسی اقتدار یا زمین کے ٹکڑے کا حصول مقصود نہیں یہ تہذیب کے غلبے کی جنگ ہے‘جو رسول اللہؐ کی زندگی میں ہی ’’تبوک‘‘ کے میدان سے شروع ہو گئی تھی ’’قیصر روم‘‘ کی قیادت میں اکیلی عالمی طاقت سلطنت روما جس نے مقابلے کی دوسری ’’سپر پاور‘‘ ایران کو شکست دی تھی‘ ایران پر فتح پانے کے بعد اسے واحد عالمی طاقت کا اعزاز حاصل ہوا تھا‘ جیسا روس کے انہدام کے بعد امریکا کو یہ اعزاز مل گیا تھا۔ افغانستان میں عبرت ناک پسپائی کے بعد وہ سپر پاور نظریاتی اساس سے خوفزدہ ہے اسلام کے طاقتور نظریے اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ تہذیب نے جس طرح اس دور کی غالب تہذیبوں ایران و روم کو پریشان کر دیا اور بالآخر دونوں تہذیبیں اور ان کی سیاسی قیادت کو تلپٹ اور نابود کر دیا تھا‘ وہ خوف جو قیصر اور کسریٰ کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا۔ وہ خوف اب تک بھی دلوں سے نکلا نہیں۔
تہذیبوں کا تصادم ایک طویل موضوع ہے اس پر سیر حاصل بحث ممکن نہیں‘ بہرحال یہ تصادم جاری ہے‘ اس میں 1979ء کے بعد سے تیزی آ گئی ہے‘ اگلی دو تین دہائیوں میں ’’پندار کے خوگر کو ناکام بھی دیکھو گے‘‘ افغانستان کے بعد غزہ اور کشمیر اس معرکے کے اہم میدان ہیں‘ امریکا کے قیادت میں سارا یورپ میدان میں اتر کے جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہے‘ افغانستان اور کسی حد تک ایران میں اس کا مظاہرہ ہو چکا ہے‘ افغانستان کے بے سروسامان غازیوں نے دو سپر پاور کی کمر توڑ دی‘ امریکا اور یورپ اپنے بل پر کچھ کرنے کے قابل نہیں اسلامی ممالک کے حکمران ہمارا اصل مسئلہ ہیں اسرائیل پر حماس کے متوقع حملے کی چند دن پہلے ’مصر کی جانب سے اسرائیل کو اطلاع دی گئی تھی حماس کے چند ہزار مجاہدین نے اسرائیل کے ناقابل شکست بنے رہنے کا اثر ایک حملے اور ایک لمحے میں ختم کر دیا ہے گھٹ گھٹ کے مرنے کے بجائے میدان جنگ میں شہادت یا فتح کا جذبہ اپنا اثر رکھتا ہے‘ عرب عوام میں حماس کے لیے ہمدردی اور درپردہ عوام کی طرف سے عملی امداد ملنا شروع ہو جائے گی وہ عرب ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں ان کی اسرائیل کے لیے گرم جوشی کو بریک لگ جائے گی‘ وہ عرب اور مسلم ممالک جو امریکا کے ایما پر قطار در قطار اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تھے انہیں انتظار کرنا پڑے گا لیکن یہاں کچھ نہیں رکے گا عرب ممالک میں عرب بہار کی طرح عوامی بغاوتوں کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ واشنگٹن میں تین لاکھ سے زیادہ امریکیوں کا احتجاجی جلوس اور اسلام آباد میں غزہ مارچ پر پابندی دو الگ الگ داستانیں ہیں، پاکستان میں اندر ہی اندر امریکا کے ساتھ وعدے اور اسرائیل کے ساتھ ساز باز کر کے جو اقتدار کے پچھلے دروازے پر کنڈی کھلنے کے منتظر ہیں‘ ان کا محاسبہ اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔