قصہ حریمِ ادب مرکز کے اک ظہرانے کا

474

حریمِ ادب، قلم کی حرمت کے شہسواروں کا وہ قافلہ ہے کہ سو سرخ اونٹوں کی چاہت میں جگہ جگہ پڑاؤ ڈالا کرتا ہے اور رک رک کر رب العالمین سے بونس میں لینڈ کروزر، اوڈی اور کرولا (آج کے سرخ اونٹ) کے سودے کرتا رہتا ہے پھر بھلے سے اس پڑاؤ والے چنگ چیوں میں ہی کیوں نہ بیٹھ کر آئیں آدرش بڑے اونچے رکھتے ہیں ایسے ہی اونچے خیالات رکھنے والی ساتھیوں کو حریمِ ادب پاکستان کی صدر عالیہ شمیم نے دعوت نامہ بھیجا، پنج آب کے بہتے ہوئے دریاؤں کی سی روانی لیے قلم کی حرمت کی پاسباں قانتہ رابعہ باب الاسلام کی بندرگاہ کراچی میں موجود ہیں۔

اب ایک ہی روز وہ بھی بابرکت یوم الجمعہ، بابرکت اجتماعیت، بابرکت ساعتوں میں ظہرانہ، اور بابرکت افراد سے گفتگو، کون تھا کہ جو مصروفیات کی آڑ میں جنت الفردوس کی یاد دلاتی اس محفل کو چھوڑتا سو ہم نے بھی ناں چھوڑا ہمارے سینٹر کے اسٹوڈنٹس اسٹڈی ٹرپ پر ٹھٹھہ سدھارے اور ہم صبح کی چند کلاسیں لے کر عالیہ شمیم کے گھر برکتیں سمیٹنے کو پہنچ گئے۔ یہاں سے قلم روداد لکھنے سے قاصر ہے اب جو بھی لکھے گا جذبات لکھے گا، احساسات لکھے گا مناجات و تجلیات لکھے گا یہاں نہ تو حریمِ ادب کے تمام لکھاریوں کا تعارف ممکن ہے نہ ہی مطمح نظر ہے یہاں بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ حریمِ ادب مرکز نے حریمِ ادب کراچی کی نگران عشرت زاہد کے سپرد سب کو مدعو کرنے کی ذمے داری دی تو ان کی کوشش یہ نظر آئی کہ کوئی برکت سمیٹنے سے رہ نہ جائے اور تقریباً وہ تمام ہی چہرے موجود تھے جو حرمت قلم کے پاسباں بن کر مرکز وکراچی حریمِ ادب کے ساتھ عہد وفا نبھا رہے ہیں لیکن یہاں آج بات ہوگی ان کی کہ جنہیں سننے اور ملنے کے لیے آئے تھے اور اس قدر پر تکلف ظہرانے سے محظوظ ومحجوب ہو کر آخر کار ایک عامل بن کر علم پھیلانے والی قانتہ رابعہ کے قلم کی جادو گری کے سب راز پانے کی تراکیب وترتیب کو جاننے کا موقع مل ہی گیا۔

وہ راز کیا تھے؟ جنہیں آپ بھی پڑھنے کے بعد قلم کی مقصدیت، معنویت اور صلاحیت کو ضائع کرنے کی کبھی کوشش نہیں کریں گے، آپ لکھاری نہیں ہیں تو بھی بننے کی کوشش کریں گے اور اگر بفضل تعالیٰ لکھاری ہیں تو قلم کو ایک پل کے لیے بھی مقصد سے ہٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

قانتہ رابعہ نے کوئی ماوراء گفتگو نہیں کی لیکن ان کی گفتگو کا محور قرآن کریم میں اللہ ربّ العزت کی جانب سے سونپی گئی ذمے داری تھی کہ جو صرف قلم کار کو نہیں، مسلمان کو نہیں بلکہ ہر انسان کو دی گئی۔ کہنے لگیں بہت آمد ہوتی ہے اور جب بھی ہوتی ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لکھ دیتی ہوں۔

پوچھا گیا یہ کیسے ممکن ہے؟

جواب ملا بیٹی کی شادی تھی بارات کا وقت تھا اور مجھ پر آمد ہوئی میں نے لکھ ڈالا انتظار نہیں کیا کہ فرصت سے لکھوں گی، فرصت ملے تو تب تک خیال بھاگ جاتے ہیں یہ نیک خیال تو اس ربّ العالمین کی طرف سے ودیعت کردہ ہوتے ہیں انہیں پل بھر کو بھی نظر انداز کر دیا ناں تو یہ کسی اور کے پاس چلے جائیں گے اس کے قلم کی نوک سے نکلیں گے امر ہو جائیں گے حالانکہ پہلا در آپ کی طرف ہی کھٹکھٹایا گیا تھا آپ نے وصول نہیں کیا حکم ربی ہے ہوکر رہے گا کسی اور پر یہ راز عیاں ہو گیا اور اس نے لکھ ڈالا وہ جیت گیا اور آپ…!

دل لرز اٹھا یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ خیال تو ودیعت کردہ ہیں ہم کون؟

باجی افشاں نوید نے پوچھ لیا کہ شہرت، مدحت، محبت، نام و مقام کیسے مینج کر پاتی ہیں کہ شیاطین کی چالوں سے بچ نکلیں؟

قانتہ رابعہ بے نیازی سے کہنے لگیں: کبھی سوچا ہی نہیں کہ یہ سب میرا ہے ہمیشہ یہی سوچا یہ جو ہے وہ ربّ العالمین کی عطاء ہے اور وہ یہ سب چھین لے تو کیا کرسکتی ہوں؟

پھر اتنی ہلکی پھلکی سی باتوں میں اتنی ذمے داریاں ڈال گئیں کہ حشر کے میدان میں قلم کی گواہی…

اگر حق نہ ادا ہو؟

اگر مثبت اثرات مرتب نہ کیے اگر منفیت پسندی اور مایوسی کو امید سے نہ بدل سکے تو کیا جواب دیں گے؟

پنج آب کے بہتے ہوئے دریاؤں کی سی روانی اور مخصوص لب و لہجے میں سادگی کے ساتھ کیسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا؟ کہ اب قلم سچ مچ میں کلاشنکوف لگنے لگا ہے کہ جس کی بلٹس کا مقصد ہدف پر جا کر دھن دھنا دھن۔ فلسطین کی حمایت اسرائیل کی مخالفت میں برسنے کو تیار وہ بھی کیسے بقول فیض: پابجولاں!! (یعنی ایڑیوں کے بل)

پوچھا گیا مقصدیت کیسے لائیں؟ فرمانے لگیں بامقصد ادب پڑھ کر بے مقصد نہیں لکھو گے ربّ کو سب سے اور سب کو ربّ سے جوڑنا ہی زندگی کا مقصد ہے تو ربّ کی کتاب قرآن کریم کا گہرائی سے مطالعہ ربّ العالمین کے محبوبؐ کی سیرت پر مکمل اور جامع کتب کا مطالعہ احکامات شریعت کی طرف لانا مقصد زندگی ٹھیرا تو ادبی لطافت و نزاکت کے بنا حسن بیاں ناممکن ہے سو ہر طرح کی تحاریر کا لا محدود مطالعہ جب مقصد زندگی وبندگی معلوم ہوگا تو مثبت سے محبت اور ابلیسی منفیت سے کراہت خود بخود پیدا ہو گی۔

اتنی سی ملاقات میں اتنے جامع ومدلل انداز میں موضوع کے دریا کو کوزے میں بند کر کے پانچ دریاؤں کی سرزمینوں کی باسی نے اس وقت کو بھی کیش کرا لیا اپنے میدان حشر کی گواہی کے طور پر میں جھلملاتی نگاہوں سے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کیا آئندہ سے میری بھی ہر ملاقات اور نوک قلم سے نکلی ہر تحریر گواہی بنے گی؟؟

اکتوبر کے اواخر کی ڈھلتی ہوئی شام میں عالیہ شمیم کے گھر میں منعقد ہونے والی یہ محفل عالیہ شمیم ہی کی دعا پر اختتام پذیر ہوئی اور سب دل میں یہی خواہش رکھ کر ایک دوسرے سے رخصت ہوئے کہ یاربی قلم تھمایا ہے قلم کار بنایا ہے تو اس قلم کو ہمارے حق میں حجت بنا دیجیے گا کہ آپ کی طرف سے ودیعت کردہ خیالات کو مثبت اور خوبصورت پیرائے میں نذر قرطاس کر کے اپنی اپنی بہترین گواہیاں رقم کرکے امر ہو جائیں۔ آمین یارب العالمین