یہ مجرمانہ غفلت کس نے کی؟

754

پاکستان غیر ملکی سرمایہ داروں کے لیے لوٹ کھسوٹ کا میلہ ہے۔ جب چاہا سرمایہ پھینک دیا، جب چاہا منافع اور سرمایہ سمیٹ لیا۔ یہ جو بجلی کے داموں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اور ہر طرف بجلی کے بلوں کی ہاہا کار مچی ہوئی ہے، اس کے ڈانڈے شریفوں اور زرداریوں سے ایسے جڑے ہوئے ہیں، جیسے ماں جائے بہن بھائی، 1996 میں فیصل آباد کے تاجروں کی درخواست پر میاں نواز شریف نے ایک رپورٹ مرتب کرائی تھی۔ اس وقت بھی ملک میں بجلی کا بحران تھا، اس رپورٹ کے مطابق ٹیکسٹائل ملز کے مالکان نے یہ عندیہ دیا تھا کہ اگر بجلی 25 روپے یونٹ بھی ہو تو وہ لینے کو تیار ہیں۔ تاکہ وہ اپنے کارخانے چلا سکیں۔ اس وقت ملک میں بجلی کا یونٹ 6 سات روپے تھا، نواز شریف کی حکومت گئی تو یہ رپورٹ بے نظر دور میں زرداری کے ہاتھ لگی۔ انہوں نے آئی پی پی کا منصوبہ تیار کیا، کمیشن سے بھرپور اس منصوبے میں اس قوم کو فروخت کردیا گیا، اور ایسے ایسے دام بچھائے گئے کہ آج پورے ملک میں ہر کوئی بجلی کے بل دیکھ کر بلبلا رہا ہے۔ یہ معاہدے ایسے مقدس صحیفے بن گئے ہیں کہ ان پر کوئی تبدیلی کرنے اور نظر ثانی کرنے پر تیار نہیں۔ جن کو ان منصوبوں پر نظر رکھنی تھی۔ انہوں نے صرف اپنے دوآنے پر نظر رکھی۔ کمیشن کی کمائی سرے محل اور لندن کی عیاشیوں میں خرچ ہورہی ہے۔ اور عوام 25 روپے کی روٹی ہاتھ میں لیے سوچ رہے ہیں کہ اس روٹی سے کنبے کا پیٹ کیسے بھریں۔

بجلی مہنگی ہی نہیں، مہنگی ترین ہو چکی اور یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کے بل دیں یا کھانا پینا اور دیگر ضروریات زندگی پوری کریں۔ اس وقت گھریلو صارف کو ایک یونٹ زیادہ سے زیادہ 57 روپے 80 پیسے اور کمرشل صارف کو 63 روپے 98 پیسے میں پڑتا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کی سب سے بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے ہیں۔ 30 جون 2023 تک ایک سال میں آئی پی پیز کو کیپیسٹی پے منٹس 1800 ارب روپے رہے ہیں۔ بجلی چوری اور لائن لاسز بھی ایک بڑا مسئلہ ہے یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ 520 ارب روپے سالانہ، چوری اور لائن لاسز 17فی صد سے زائد ہے اور اس مد میں صرف ایک فی صد 30 ارب روپے بنتا ہے۔ پھر سرکاری محکمے اور مفت بجلی کی سہولت پانے والی اشرافیہ جس کے تمام خرچے بھی عوام پر ڈال دیے گئے ہیں۔ ایسی بجلی کی رقم جو صارف نے استعمال ہی نہیں کی مگر اس کا بالآخر بوجھ بھی صارف پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس سال بجلی چوری اور لائن لاسز تقریباً 700 ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ یہ بوجھ بھی انہیں صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے جو بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔

ڈالر کی لوٹ مار میں کس کس نے حصہ لیا اور کتنا کمایا۔ اس پر کوئی تو انکوائری ہونی چاہیے، غریب عوام تو اس میں ملوث نہ تھے، یہ اشرافیہ اور سرمایہ داروں کا کھیل تھا، جس سے سب واقف تھے، ڈالر کی غیر قانونی تجارت، اسمگلنگ، سٹہ بازی کے خلاف کریک ڈائون، انتظامی اقدامات پہلے کیوں نہ کیے گئے، جب رات دن ڈالر اوپر جارہا تھا، اور لوگ دونوں ہاتھوں سے دولٹ سمیٹ رہے تھے۔ اسٹیٹ بینک اس وقت کیوں سویا ہوا تھا۔ اس وقت اسے اصلاحات، بینکوں کے غیر قانونی خرید و فرخت کے عمل پر قدغن لگانے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ ایک ماہ میں ڈالر کے مقابلے پر پاکستانی کرنسی میں 6.2 فی صد بہتری آئی ہے۔ تو جناب سب کچھ ممکن ہے۔

ملک میں جولائی اور اگست میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے حاصل منافع کی مد میں 49.2 ملین ڈالر اپنے ممالک منتقل کیے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 74.46 فی صد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری سے حاصل منافع کی مد میں 28.2 ملین ڈالر اپنے ممالک منتقل کیے تھے۔ ایک ایسے وقت میں جب ڈالر کی اونچی اڑان کو روکنے کے لیے کاروائیاں ہورہی ہیں، غیر ملکی سرمایہ کار اس ملک سے منافع ڈالروں میں لے جارہے ہیں۔

امن و امان کے محاذ پر ہمارے سیکورٹی ادارے، جانے کیوں چوک جاتے ہیں، دھماکہ ہوجانے کے بعد ہی ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمیں دشمن کے منہ پر پہلے مکا مارنا تھا۔ ایسا مکا جو حملے کے بعد یاد آئے، اسے اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ ادارے کسی اور کام میں مصروف ہیں، انہیں جو ذمے داری قوم اور ملک نے سونپی ہے، اس کے بجائے وہ ملک میں انقلاب برپا کرنے اور نئی سیاسی جماعتوں کو مقبول بنانے اور الیکشن کو نت نئے انداز سے جیتنے کے جتن میں مصروف ہیں۔ لیکن سروے یہ بتا رہے ہیں کہ جس قدر بھی پابندیاں لگا دی جائیں، لیڈروں کو نا اہل کردیا جائے، انہیں جیلوں میں رکھا جائے، عوام اپنی رائے کا وقت پر اظہار کریں گے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کی ولادت کے جلوس پر مستونگ میں جو قیامت گزری ہے، وہ افسوس ناک اور دل خراش ہے۔ اس سانحے میں جاں بحق افراد کی تعداد 60 سے متجاوز ہوگئی ہے۔ بلوچستان پہلے ہی زخم زخم ہے، کب تک یہاں کے لوگ لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ آئی جی پنجاب کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردوں کے حملے سے متعلق ہمارے پاس اطلاعات تھیں، ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اطلاعات آنے کے بعد یہ مجرمانہ غفلت کس نے کی؟