’’ہاتھ کٹوں کا ملک‘‘

893

رات گئے ایک نئے کالم کا عنوان سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی اور پھر میں خوابوں کی حسین دنیا میں چلا گیا خوابوں کی اس دنیا میں انسان بنا کسی محنت اور سرمایہ کے لمحوں میں خزانوں کا مالک اور بنا کسی مہم کے اپنے آپ کو بادشاہ اور وزیر بنا دیکھتا ہے اُسے کسی رنگ اور نسل کی جانچ پڑتال کے بغیر حسین ترین ہم سفر اور مفادات سے بے نیاز دوست اور رفیق میسر ہوتے ہیں اس کے حکم پر ہوا، پانی اور فضائیں رقص کرنے لگ جاتی ہیں لمحوں میں اگر وہ چاہے تو پوری دنیا اس کی زیر نگیں ہو جاتی ہے اور اگر وہ اسے نیست و نابود کرنے پر تل جائے تو اس اکیلے کی شکتی دنیا تو کیا چاند اور مریخ تک ہر شے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے لیکن میرا خواب ان تمام چیزوں سے الگ اور کچھ ڈراونا سا تھا۔

میں نے دیکھا کے میرے ملک میں نیچے تا اوپر بلا تخصیص احتساب کا نعرہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا اور لاکھوں لوگ دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم ہائوس کا گھیراو کیے ہوئے ہیں نگراں وزیر اعظم سے ان کا مطالبہ تھا کے آپ کے پیش رو جو کام 75 سال میں نہ کرسکے آپ اسے عبوری مدت میں پورا کر دکھائیں میں اپنے آپ کو اس صف میں سب آگے دیکھ رہا تھا عوام کا جوش و غصہ دیدنی تھا امن عامہ کی صورتحال کے پیش نظر رینجرز، پولیس اور فوج کی بھاری نفری طلب کر لی گئی قریب تھا کے لوگ وزیر اعظم ہائوس کے احاطے کا جنگلا توڑ کر 9 مئی کی طرز پر اندر گھس جاتے اور کور کمانڈر کے گھر کی طرح ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتے، اچانک ایک فوجی قافلہ وزیر اعظم ہائوس کے احاطے کے مرکزی دروازے پر آ رُکا سیکنڈوں میں فوجی جوانوں نے اپنی گاڑیوں سے چھلانگ لگا کر پوزیشن سنبھال لیں درمیان کی کسی گاڑی سے ایک بارعب شخص اپنی فوجی ٹوپی کو ذرا ترچھا رخ دیتا اور اپنی چھڑی بغل میں دبائے اترا مجمع پر خاموشی چھا گئی ان کا جوشیلا جھاگ کچھ دیر کے لیے نیچے بیٹھ گیا بپھرے ہوئے ہر شخص کی نگاہیں اپنے دائیں بائیں گردش کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے محو سوال تھیں کے یہ کون ہے؟ بہت سارے حاضر سروس جرنیلوں کے نام نگاہوں سے ایک دوسرے کو پہنچائے گئے میں چونکہ اگلی صف میں تھا ذرا سا غور کرنے پر مجھے پوری طرح شرح صدر ہو گیا کہ یہ کوئی اور نہیں میرے ملک کے سالار اعلیٰ ہیں جو حافظ قرآن بھی ہیں، میں نے دیکھا وہ لمبے قدم کا استعمال کرتے ہوئے جھٹ ایک کھلی لینڈ کروزر پر کھڑے ہوگئے مختصر سی اپنی تقریر میں انہوں نے لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ ابھی نگراں وزیر اعظم سے ملاقات کر کے آپ کے مطالبات پر ان کو عمل در امد کا کہیں گے مجمع نے یقین کر لیا غصہ فرو ہو گیا سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر امن بیٹھ گئے اور ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے پھر منٹ نہیں گھنٹے گزر گئے لوگوں کا سکون پھر شور شرابے اور نعرہ بازی کی طرف مائل ہونے لگا، خاموشی سرگوشی اور سرگوشی سرسراہٹ میں تبدیل ہوکر آواز میں ڈھلنے لگی ہی تھی کہ چند فوجی جوان وزیر اعظم ہائوس کا دروازہ کھول کر باہر آئے اور اعلان کیا کے مجمع میں سے کوئی پانچ اشخاص آگے آئیں اور اپنے مطالبات کے لیے سالار اعلیٰ سمیت نگراں وزیر اعظم سے مذاکرات کریں۔

میں نے دیکھا مجمع پر ایک سناٹا سا چھا گیا سب خاموش ہو کر اپنی گردن دائیں بائیں موڑنے لگے کسی نے بھی آگے آنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اس مجمع کی رہنمائی کے لیے دھوکے اور فریب سے پر کوئی چہرہ جسے عام اصطلاح میں لیڈر کہا جاتا ہے موجود نہیں تھا موقع مناسب دیکھتے ہی میں نے سوچا لیڈر بننے کے اس بہترین موقع کو کیوں جانے دوں کیونکہ تمام نام نہاد لیڈر خراب صورتحال کا ادراک کرتے ہی دائیں اور بائیں کو نکل گئے تھے میں آگے بڑھا میرے پیچھے کوئی نہیں آیا الغرض میں ان جوانوں کے ساتھ اس دیو مالائی اور طلسماتی ہال میں جا پہنچا جہاں عوام کے حقوق دلانے کے دعویدار ان کے درد کو اپنا کہنے والے غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب فقرا اپنی گداگری کے لباس اتار کر شاہانہ جوڑوں میں ملبوس ملک و ملت کی تقدیر سے کھیلتے ہیں۔

مجھ سے مطالبات کی فہرست طلب کی گئی ایک طویل فہرست کو دیکھتے ہی ان کے ہوش و حواس جاتے رہے اس لیے کے اگر وہ سارے حل کر دیے جاتے تو پھر ان کی بادشاہت کا کیا بنتا؟ وہ پھر کس پر راج کرتے؟ وہ یہ بات بھول گئے تھے دربار شاہی میں کلمہ حق بلند کرنے والے ابراہیم و موسیٰ کو تو آج سب یاد کرتے ہیں لیکن نمرود و فرعون کا نام آتے ہی ان کی چہرے حقارت بھرے ہو جاتے ہیں آقائے دو جہاںؐ اور ان کے صحابہ کے سارے نام ہر ایمان والا اپنے بچوں کے لیے شوق سے تجویز کرتا ہے لیکن ابو جہل عتبہ اور شیبہ کا نام کسی کو بھی پسند نہیں۔ اپنی عینکوں کے پیچھے سے سالار اعلیٰ اور نگراں وزیر اعظم دونوں نے ایک دوسرے سے اپنی نگاہیں چار کیں اور پھر سالار اعلیٰ نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آپ کون ہیں اور آپ کا نام کیا ہے؟ اس جھمیلے میں پڑے بغیر آپ سے استدعا ہے کہ آپ کچھ لمحے سوچ لیں چائے پانی سے ہم آپ کی تواضع کا انتظام کر دیتے ہیں کچھ اور بھی درکار ہو تو ہم حاضر ہیں لیکن آپ صرف کوئی ایک مطالبہ ہم سے منوا لیں اور باہر جا کر مجمع کو مطمئن کریں اور اس دھرنے کو ختم کرانے میں ہماری مدد کریں۔

میرے لیے یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ تھا اس لیے کہ اس وقت میں قوم و ملت کا خود ساختہ لیڈر بن کر ان کی نمائندگی کر رہا تھا اور مجھے باہر جا کر مجمع کو مطمئن بھی کرنا تھا بہت سوچ و بچار کے بعد میں نے مذاکرات دوبارہ شروع کیے اور ان سے اس بادشاہ کی طرح جسے دوران قید صرف ایک کھانا چننے کا کہا گیا تھا اور جس کے خانساماں نے اس کی خوراک کے لیے صرف چنا تجویز کیا تھا صرف ایک مطالبہ رکھ دیا اور وہ یہ کہ ’’رنگ نسل ذات برادری امیر غریب حاکم محکوم بادشاہ وزیر مشیر جج اور جرنیل جس پر بھی کرپشن ثابت ہو ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں‘‘۔ وہ سارے سکتے میں آگئے مجھ سمیت سب نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور چاہا کہ اس کے کٹنے سے پہلے ایک بار تو اسے چوم لیں لیکن ہر کسی کو آداب محفل آڑے آگیا وہ سارے کمرے سے باہر میٹنگ روم میں چلے گئے میں تنہا ان کا انتظار کرتا رہا کچھ دیر بعد مجھے اطلاع دی گئی کے آپ کے مطالبے پر قانونی مشاورت کے لیے نئے چیف جسٹس کو طلب کیا گیا ہے آپ انتظار فرمائیں گھنٹے بھر بعد ہال کا دروازہ کھلا کمرے میں صرف ایک شخص داخل ہوا میں حیران ہوگیا وہ ہمارے ملک کے قابل احترام نئے منصف اعلیٰ تھے میں ان کے احترام میں کھڑا ہوگیا اس لیے کہ ان کے عدل سے قوم کی بہت ساری توقعات وابستہ تھیں انہوں نے چند لمحے سکون کے بعد فرمایا میرے محترم مخلص اور رہبر قوم آپ نے ہمیں انتہائی مشکل میں ڈال دیا ہے ہمارے لیے تو یہی بہتر تھا کہ آپ کے بہت سارے مطالبات میں سے ہم چند کو مان لیتے اور چند کو رد مگر ہماری کم بختی جو ہم نے آپ کو صرف ایک مطالبے پر راضی کیا بہت غور و خوض کے بعد یہ فریضہ مجھے سونپا گیا کہ میں آپ کو یہ گوش گزار کروں کے ہمارے لیے یہ مشکل کام ہے کچھ قانونی پیچیدگیوں کچھ اشرافیہ کا زور کچھ حسب مراتب کا خیال اور کچھ عدالتی نظریہ ضرورت کے تحت ہم آپ کے اس اکلوتے مطالبے کو بھی نہیں مان سکتے میں نے ان سے کہا یہ تو وعدہ خلافی ہے میں باہر کس منہ سے جائوں گا اور غصے سے بھری خلقت کو کس طرح مطمئن کروں گا۔

انہوں نے اپنی گردن نیچے کرتے ہوئے کہا مجبوری ہے اگر آپ انہیں منا لیں گے تو بہتر ورنہ انتظامیہ تو اپنا کوئی نہ کوئی حربہ و اختیار استعمال کر ہی لے گی۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے میں بھی کھڑا ہوگیا وہ میرے قریب آئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تھپکی دی اور دکھ بھرے لہجے میں کہا میرے ملک کے مخلص دوست اور رہبر قوم ’’آپ کیوں چاہتے ہیں کے اقوام عالم میں ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس کے امیر ہوں یا غریب، آجر ہوں یا اجیر بادشاہ ہوں یا وزیر امام ہوں یا مقتدی، استاد ہوں یا طالب علم، پاکباز ہو یا گنہگار ان کی اکثریت کے ہاتھ کٹے ہوئے ہوں‘‘۔ وہ یہ کہتے ہوئے ڈب دباتی آنکھیں لیے کمرے سے باہر نکل گئے

اور میں ان کے پیچھے اپنی گردن جھکائے مجمع کو کچھ بتائے بنا انہیں چیرتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا میرے پیچھے لوگوں کا ازدحام تھا اور سب یہ نعرے بلند کرتے میرے پیچھے ڈورے چلے آرہے تھے چور ہے چور ہے ہمارا نیا لیڈر بھی چور ہے کسی نے مجھے بکائو مال کہا کسی نے لوٹا اور کسی نے لعنتی اور کسی نے تو حد ہی کر دی ایک بڑا پتھر اٹھایا اور میری طرف اچھال دیا اس پتھر کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میری آنکھ کھل گئی۔ سچ ہی تو ہے ہمارے ملک میں کوئی شخص شعبہ یا ادارہ ایسا نہیں جہاں کرپشن نہ ہو میں اگر اپنے مطالبے پر زور دیتا تو ہمارا ملک ہاتھ کٹوں کا ملک ہوتا۔