مولانا ضیا الرحمن مدنی کی شہادت

595

ستمبر کا مہینہ بھی عجیب تاریخ رکھتا ہے، یہی ستمبر کا مہینہ تھا جب 1999ء میں جیّد اہلحدیث عالم دین علامہ سعید بن عزیزؒ 12 ستمبر کو شہید کردیے گئے اور آج یہی مہینہ ہے ستمبر کی 12 تاریخ ہے ایک اور جید اہلحدیث عالم دین اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ گلشن اقبال کراچی کے مدیر فضیلہ الشیخ ضیا الرحمن مدنی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کے درجہ پر فائز ہوگئے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی شہادت سے شروع ہونے والا شہادتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، کئی علمائِ اہلحدیث و دیگر شہید ہوئے، علما کی شہادتوں کے خلاف تاحال ایسی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں علمائِ دین کو نشانہ بناتے ہیں، ہماری حکومتی ایجنسیاں ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات کے سدباب کے لیے اندرونی و بیرونی سازشوں کا قلع قمع کرنے میں تاحال کیوں ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ ماضی کی طرح اب بھی اس سانحہ پر حکمران روایتی بیانات اور قاتلوں کو ہر قیمت پر کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں، تحقیقات ہوں گی، کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی لیکن اس دوران پھر کوئی سانحہ رونما ہوجائے گا، آخر کب تک ٹارگٹ کلنگ و دہشت گردی کا یہ سلسلہ چلے گا؟ کب تک ہم اپنے رہنمائوں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے۔ حکمرانوں کے لیے ایک سوال لمحہ فکر ہے کہ وہ آخر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس و مستقل بنیادوں پر پالیسی کیوں نہیں بناتے اور انصاف کیوں نہیں جاگتا ان شہدا کا لہو کیوں ضائع جاتا ہے۔ دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں کچھ عرصہ بعد رہا بھی ہوجاتے ہیں اور آزادانہ کارروائی کے لیے دندناتے پھرتے ہیں۔ قومی، سیاسی و دینی رہنمائوں کا سفاکانہ قتل پورے مہذب معاشرے کا قتل ہے، ایک عالم کا قتل پورے عالم کے قتل کے مترادف ہے۔

مولانا ضیا الرحمن مدنی شہید ایک عالمی سطح کی دینی درس گاہ کے مدیر تھے، وہ دینی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے، وہ ایک بلند پایہ دینی اسکالر روشن فکر کے حامل عالم دین تھے۔ وہ رواداری و مذہبی یگانگت کے فروغ کے لیے اپنے ادارے کے ذریعے نمایاں خدمات انجام دے رہے تھے، نوجوان طالب علموں میں مشہور و معروف تھے، ان کی تقاریر، خطبات جمعہ و تحریر اسلام کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کراتی تھی وہ اسلام کے قوانین و تعلیمات کو دینی حکمت و خوبصورت انداز میں بیان کرتے تھے۔ مولانا مسلکی اختلافات کے اظہار کے لیے مثبت فکر رکھتے تھے، فرقہ وارانہ تنازعات سے دور رہ کر راہ اعتدال پر تھے، اپنی درس گاہ کے طالب علموں کی تربیت بھی انہی اصولوں پر کرتے تھے۔ ان کی تربیت، محنت و خلوص کا ہی نتیجہ ہے کہ جامعہ آج ایک خاص علمی مقام رکھتی ہے۔ وہ اکثر اپنی تقاریر میں دینی اداروں کی اہمیت سے آگاہ کرتے اور اساتذہ و طلبہ کو نصیحت کرتے کہ وہ باہمی اختلافات کو علمی حدود تک محدود رکھیں، اپنے مسائل کے اختلافات کو باہمی انتشار و افتراق کا ذریعہ نہ بننے دیں، وہ عقیدہ توحید، ختم نبوت، شان صحابہؓ و اہل بیت و بزرگان دین سلف صالحین کی مثالیں دے کر ان کے نقش قدم پر چلنے کو صحیح راستہ قرار دیتے، وہ علم و عمل کے پیکر، منکسر المزاج، وسیع المطالعہ، وسیع و روشن فکر، رواداری علم و حلم رکھنے والے عالم دین تھے۔ وہ فروعی اختلافات کی بنیاد پر کسی مکتبہ فکر کے عالم کی تقصیر، تنقیص و استہزا سے اجتناب کرنے کی نصیحت کرتے اور دینی طلبہ کو ہر اہل علم کے احترام کا درس دیا کرتے تھے وہ مخالف کو طنز و استہزا کرنے کو علم کی توہین سمجھتے۔ اہلحدیث جماعتوں کے علاوہ تمام دینی جماعتوں میں باہمی اختلافی مسائل پر وسیع القلبی کے ساتھ برداشت و تحمل کی دعوت دیتے، شہادت سے کچھ دن قبل یہی پیغام انہوں نے جماعت غربا اہلحدیث کی مرکزی دینی درس گاہ جامعہ ستاریہ اسلامیہ گلشن اقبال کراچی میں ہونے والے علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دیا اور کہا کہ آپ کسی فکر و مسلک کے ہوں لیکن نماز کے وقت امام ایک ہی ہوتا ہے اور بقیہ تمام نمازی اس کی امامت و قیادت میں نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ہمیں بھی نماز جیسی بنیادی عبادت سے باہمی اتحاد و اتفاق کا سبق حاصل کرنا چاہیے۔ مولانا کی دعوت کو فروغ دینا ہی ان کو بہترین خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ان کی عظیم شہادت سے یہ قافلہ حق رکے گا نہیں ان کی شہادت ہمارے لیے ایک نئے عزم و حوصلہ کا سبب بنے گی اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اس مملکت خداداد میں ایک دن ضرور اسلام کا قانون و نظام سربلند ہو کر رہے گا (ان شاء اللہ)

ملک کے کروڑوں اہلحدیث و دیگر دینی جماعتیں حکمرانوں سے پرزور مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور مولانا ضیا الرحمن مدنی و دیگر علما کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں جو ان کا حکومتی فریضہ ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ حکومت مولانا کے قاتلوں کے انجام سے اہلحدیث مکتبہ فکر کو جلد مطمئن کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی مولانا ضیا الرحمن مدنی کی شہادت کو قرض سمجھتے ہوئے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے مشن دعوت توحید و سنت کو پہلے سے زیادہ طاقت سے جاری رکھیں گے۔ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی