خدا حافظ عطاء بندیال

625

چیف جسٹس عطاء بندیال اب جسٹس نہیں رہے لہٰذا بہت سے ایسے ہوں گے جو اب کھل کر کھیلیں گے۔ جسٹس عطاء بندیال سے دوستی بھی ہے تعلق بھی، یہ دونوں اپنی جگہ قائم ہیں۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ عدالت عظمیٰ انسانی حقوق اور آئین کی محافظ ہے۔ یہ ذمے داری اس عدالت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر آج تک ہمارا معاشرہ ملک کے نظام انصاف پر اپنا اعتماد کیوں بحال نہیں کرسکا؟ یہ سوچنا پارلیمنٹ، وکلا اور عدلیہ کی ذمے داری ہے۔ یہ تینوں طبقے بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں کچھ ہو جسے وہ زبان پر نہ لاسکیں، کچھ بھی ہو، ملک کی عدلیہ اور عدالت میں بیٹھا ہوا جج اللہ کو لازمی جواب دہ ہے کہ وہ عدالت میں ایک جج کی حیثیت سے اللہ کے نائب کے طور پر بیٹھا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جج اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دیتے ہیں‘ بالکل ایسا ہی ہے لیکن پھر یہ کیا ہے کہ جج عدالت میں بیٹھے بیٹھے ہی بعض اوقات ٹی وی چینلوں پر چلنے والے ٹکرز سے بھی واقف ہوتے ہیں بلکہ متعدد بار ایسا ہوا کہ بھری عدالت میں بیٹھے بیٹھے ہی کہا کہ یہ کیا ٹی وی پر چل رہا ہے۔ ایک جج کو اس سے کیا؟ کیا چل رہا ہے اور کیوں چل رہا ہے؟
چیف جسٹس کمیٹی ہوا کرتی تھی، آج کل بھی ہے مگر غیر فعال ہے، غیر فعال اس معنی میں بہت عرصہ ہوا اس کا کوئی اجلاس نہیں ہوا‘ اس کمیٹی کی بے شمار سفارشات ہیں تاہم ایک سفارش یہ ہے کہ جج کسی عوامی تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس ایک سفارش پر کتنا عمل ہوتا ہے؟ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس کا اختیار بھی ہے، یہ در اصل مفاد عامہ کے تحفظ کے لیے ایک اختیار دیا گیا ہے؟ چلیے ایک سوال کرلیتے ہیں‘ اسلام آباد کی حد تک ہی سہی، شہر میں دو بڑے میڈیکل اسٹور ہیں ان میڈیکل اسٹوروں پر ادویات کے علاوہ کیا کیا کچھ فروخت نہیں ہورہا، کبھی اس پر حکومت اور عدلیہ توجہ دے گی؟ میڈیکل اسٹوروں پر صرف ادویات ہی فروخت ہونی چاہئیں میک اپ کا سامان کیوں فروخت ہورہا ہے؟
اب آتے ہیں گڈ تو سی یو کی طرف… یہ جملہ عطاء بندیال جہاں بھی جائیں گے ان کے ساتھ سایے کی طرح چلے گا‘ ججوں کا کوئی کام نہیں ہے کہ تبصرہ کریں‘ انہیں صرف فیصلہ دینا ہوتا ہے اور فیصلہ بھی مروجہ قانون اور آئین کے مطابق‘ لیکن جب ملک میں ایوب خان آجائیں‘ ضیاء اور پرویز مشرف مورچوں سے نکل اقتدار میں آجائیں تو پھر آئین نہیں رہتا‘ بس ایک قانون ہوتا ہے جسے حکمران اپنے لیے بناتا ہے لہٰذا اسی کی کوکھ سے پی سی او نے جنم لیا‘ ہمارے ملک میں جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کے دور میں پی سی او جج رہے ہیں ان تمام ججوں کے فیصلوں کی آئینی توثیق آنے والی اسمبلی نے کی‘ آئین میں آٹھویں اور سترویں ترمیم لائی گئیں‘ جس نے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے فیصلوں کو آئینی چھتری مہیا کی‘ جس اسمبلی نے جنرل ضیاء الحق کے فیصلوں کو آئینی تحفظ دیا وہی اسمبلی اور حکومت کرپٹ قرار دے کر جنرل ضیاء نے رخصت کردی تھی اور یہی کچھ جنرل مشرف نے کیا‘ جب مشرف آئے تو سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس تھے‘ ان کا خیال تھا کہ مشرف ماضی کے فوجی حکمرانوں سے مختلف ہیں لیکن تین ماہ کے بعد ہی پی سی او آگیا اور جسٹس صدیقی فارغ ہوگئے۔ جب مشرف کا اقتدار ڈولنے لگا تو تین نومبر کو ایمر جنسی نافذ کی اور اسمبلی اور سینیٹ برخاست کردی‘ اب کون ہے جو تاریخ سے سبق سیکھے گا‘ اگر چیف جسٹس صاحب چاہتے تو تمام اداروں کے اپنے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے کردار ادا کرسکتے تھے لیکن انہوں نے سب سے اہم اپنے کردار کو رکھا جو بدقسمتی سے دوسرے اداروں میں مداخلت کا کردار تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد 16 ستمبر کو ریٹائر ہوئے، 2 فروری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بنے، وہ ایک سال سات ماہ 14 دن چیف جسٹس رہے‘ عمر عطا بندیال کا بطور ایک جج عدالتی کردار لاہور ہائی کورٹ سے شروع ہوا۔ وہ 2004ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے، عدالت عالیہ میں ایک جج کی حیثیت سے اپنے فرائض تب تک ادا کرتے رہے جب تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء میں ایمرجنسی پلس مسلط کرکے ججوں کو پی سی او کے تحت اپنی وفاداری کا حلف لینے پر مجبور نہ کیا، اس غیر آئینی صورتحال میں جسٹس عمر عطا بندیال ان ججوں میں شامل ہوگئے جنہوں نے ایک آمر سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔ 16 جون 2014ء کو جسٹس بندیال لاہور ہائی کورٹ سے ترقی پاکر عدالت عظمیٰ کے جج بن گئے۔ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ سے 20 دن پہلے یعنی 13 جنوری 2022ء کو تحریک انصاف کی حکومت کی سفارش پر صدر مملکت عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال کو باضابطہ طور پر چیف جسٹس نامزد کردیا۔ اس طرح جسٹس عمر عطا بندیال 2 فروری 2022ء کو اپنے عہدے کا حلف لے کر عدالت عظمیٰ کے سربراہ بن گئے۔ عدالت عظمیٰ میں اب تک رہنے والے چیف جسٹسوں میں سے بیش تر ججز اپنی مدت ملازمت کے دوران اپنے ہی کچھ متنازع فیصلوں، عدلیہ کے مجموعی کردار اور التوا میں پڑے مقدمات کے سبب بار ایسوسی ایشنوں، سیاسی جماعتوں، صحافیوں اور تجزیے نگاروں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد کی طرف سے تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی تو ان کے اپنے ساتھی ججوں سے بھی نہیں بن پائی۔ جسٹس عمر عطا بندیال ہی وہ چیف جسٹس رہے جن کے دیے گیے فیصلوں پر عدالت عظمیٰ کے اہم ججوں نے زیادہ اور سخت ترین اختلافی نوٹ بھی لکھے۔ یہاں تک کہ ایک معزز جج جسٹس منصور علی شاہ نے لکھ دیا کہ بینچز بنانے کا چیف جسٹس کا اختیار ون مین شو جیسا ہے۔
ایک جج کا حلف کیا ہوتا ہے یہی کہ ’’میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمان داری، اپنی انتہائی صلاحیت و وفاداری کے ساتھ دستور پاکستان اور قانون کے مطابق سرانجام دوں گا، عدالتی کونسل کے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کروں گا، اور یہ کہ ذاتی مفادات کو اپنے سرکاری فرائض یا اپنے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا، اور یہ کہ میں جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا، ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق، بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمائے‘‘۔ بس یہ حلف یاد رکھنے والی چیز ہے جسے حلف یاد رہتا ہے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی‘ پھر فیصلے قانون اور آئین کے مطابق ہی ہوتے ہیں آرٹیکل 63 کی تشریح ایک کیس میں کچھ اور دوسرے میں کچھ اور نہیں ہوتی۔