وہ جا رہا ہے کوئی

741

نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح رانڈ رونے روئے ہیں اس پر ایک ٹیکنیکل اعتراض یہ ہے کہ اس تقریر کا صحیح محل جمعرات کو وہ فل کورٹ ریفرنس ہوسکتا تھا جو جانے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں الوداعی خطاب کی صورت مہیا کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ڈر ہو کہ اُس موقع پر شاید ہی انہیںکوئی ’’ویلکم اور گڈ ٹو سی یو‘‘ کہنے والا ہو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نہ فل کورٹ ریفرنس ہوگا اور نہ جسٹس بندیال کو جسٹس فائز عیسیٰ کی تقریر سننا پڑے گی۔ جسٹس بندیال کا خطاب الوداعی تقریر نہیں پچھتاوا تھا، کیرئیر کی ناکامیوں کی کشید اور احوال۔ جسٹس بندیال پر یہ اعتراض مناسب نہیں کہ تحقیقاتی اداروں کی تحویل میں ہزاروں غریب روزانہ جسمانی ریمانڈ سے ذلیل وخوار ہورہے ہوتے ہیں، اپنے طویل کیرئیر میں کتنے غریبوں کو بلاکر انہوں نے گڈ ٹو سی یو کہا۔ جج ہونے کا یہ مطلب کہ ہر وقت انصاف کی مچان پر بیٹھے رہیں جسٹس بندیال ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا دل اس معاملے میں بہت سلیکٹڈ تھا۔

وہ عدل سے اس وقت بے محابا اور برملا کنارہ کر لیاکر تے تھے جب معاملہ ان کی ساسو ماں کے پسندیدہ عمران خان کا ہوتا۔ اسے جنوں کہا جائے یا فسوں اس کی پروا انہوں نے کبھی نہیںکی۔ عدل کے معاملے میں وہ بالکل ٹھنڈے اور غیر جذباتی تھے۔ اس کا ثبوت وہ زیر التوا مقدمات ہیں ہمارا نظام عدل جنہیں اوڑھ کر سویا ہوا ہے۔ وہ اس حال میں رخصت ہورہے ہیں کہ ان کے دور میں عدالت عظمیٰ کے زیرالتوا مقدمات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ 56ہزار پانچ سو چوالیس زیر التوا مقدمات عدالت عظمیٰ کی تالا لگی الماریوں میں اپنے نصیبوں کو رورہے ہیں جو ایک ماہ پہلے 54ہزار 965 تھے۔ عدالت عظمیٰ کے پچھلے ایک ماہ کے دوران ایک ہزار پانچ سو اناسی زیرالتوا مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں زیر التوا پٹیشنوں کی تعداد تیس ہزارپانچ سو اٹھتر اور زیر التوا سول اپیلوں کی تعداد نو ہزارآٹھ سو پچھتر تک ہو گئی ہے۔ فوجداری مقدمات کی تعداد نو ہزار تین سو چوراسی ہے، پچیس ازخود نوٹس بھی زیرالتوا ہیں۔

عظیم گویوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو گویے بھی بڑی تعداد میں ملتے ہیں لیکن مسلمان گویوں کی طرف دیکھا جائے تو آدمی عش عش کر اٹھتا۔ تاہم عدل کے باب میں معاملہ الٹا ہے۔ ہمارے جج حضرات گویوں سے اتنا پیچھے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ پاکستان کسی بھی شعبے میں انصاف کرنے کے لیے بنا ہے۔ نظام عدل میں ہمیں کوئی نورجہاں اور مہدی حسن نہیں ملتا۔ استاد بڑے غلام علی خان کی طرح عدل بھی پاکستان سے عرصہ ہوا ہجرت کر گیا ہے۔ اس وقت شاید ہی کوئی جج ایسا ہو جسے دیکھ کر گردن احترام سے جھک جائے، جس کی تعظیم میں کھڑا ہوا جائے، جس کے ساتھ تعلقات کا حوالہ دیا جائے یا جس کے ساتھ تصویر کھنچوانا بھی فخر کا باعث ہو۔ کہا جارہا ہے کہ تقریب میں نامور وکیل اور صحافی عبدالقیوم صدیقی کو جسٹس بندیال نے اپنے ساتھ تصویر کھنچوانے کی دعوت دی تو انہوں نے انکار کردیا۔

ہماری عدالتوں اور جج صاحبان کی ترجیحات میں عوام کو انصاف کی فراہمی کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ کسی غریب سائل کا، کسی مولا بخش کو انصاف فراہم کرنے سے جج صاحب کا نام نامی اخبارات کی سرخیوں میں نہیں آتا۔ میڈیا ٹاک شوز میں نہیں اچھالا جاتا تو ایسے انصاف کا فائدہ۔ ایک انصاف ہوتا ہے زمانوں کے لیے اور ایک ہوتا ہے اپنے ارمانوں کے لیے۔ اپنے ارمان تب ہی پورے ہوتے ہیں جب سیاسی معاملات میں مداخلت کی جائے۔ عدل کا چراغ نیم شب سورج تب ہی بنتا ہے جب سیاسی ایشوز میں الجھا جائے۔ بندیال صاحب کا یہ شکوہ کہ انہیں آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا۔ عدالت کا امتحان نہیں لیا گیا سیاسی اور آئینی معاملات میں الجھنا، پارلیمنٹ کے مقابل آنا ہی ہماری اعلیٰ عدلیہ اپنی شان کے مطابق سمجھتی ہے۔ ان معاملات کو ہی وہ اپنے اسٹیٹس کے مطابق سمجھتی ہے۔ اس معاملے میں ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں بھی کم ظالم نہیں جو سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں لڑنے کے بجائے عدلیہ کے ایوانوں میں کھیلنا زیادہ پسند کرتی رہی ہیں۔ نوازشریف جیسے سینئر سیاست دان نے بھی میمو گیٹ کے معاملے میں کالا کوٹ بناکر عدالتوں میں حاضر ہونے میں کوئی برائی نہیں سمجھی تھی۔ ہماری سیاست کا کھوکھلا پن عدالتی فیصلوں کے کھوکھلے پن سے مرکب ہوکر ہی ہمارے ساتھ وہ کچھ کرنے کے قابل ہوا ہے جس کے بعد ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہی۔

چیف جسٹس بندیال کی تقریر ان کے پورے کیرئیر کا خلاصہ تھی۔ ان کی آئینی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازیاں دوچار برس کا قصہ نہیں ہیں۔ پاناما پیپرز کے جھن جھنے سے نواز شریف کی سماعت کے پردے پھاڑ دینے کا اہتمام ہو، 2014 میں عمران خان کے دھرنے میں ہونے والے ہر آئین اور قانون شکنی پر آنکھیں موندے رکھنے کی عادت ہو، عمران خان کو صادق اور امین قرار دینا ہو۔ ان تمام معاملات پر اگر کوئی بطور چیف جسٹس اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نوٹس لے رہا تھا، درخواستوں پر فوری ایکشن اور بینچوں کی تشکیل کررہا تھا وہ چیف جسٹس بندیال تھے۔ 63A جیسے آئین کے آرٹیکل کی تشریح کرکے پنجاب میں کون حکومت بنا اور گرارہا تھا۔ یہ حالات اور واقعات بے شک ان کے پیدا کردہ نہیں تھے لیکن ان واقعات کو اپنے اندھا دھند فیصلوں کے ذریعے صورت عطا کرنے اور نتیجہ خیزبنانے والے وہی تھے۔ کس نے انہیں گن پوائنٹ پر نہیںکہا تھا کہ ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ اپنے دل میں جمع غبار کو نکالنے کے لیے وہ جو چاہیں کہتے رہیں لیکن ان کی بات کا یقین تب ہی کیا جاسکتا ہے جب دل جھوٹ کی طرف مائل ہو۔ پرانا مقدمے باز آدھا وکیل ہوتا ہے وہ تو ماشااللہ چیف جسٹس تھے۔

نئے عدالتی سال کے آغاز میں بہتر ہوتا کہ عدالتی نظام میں موجود نقائص کی اصلاح کے لیے کوئی طریقہ کار مرتب کیا جاتا، ایسا میکنزم بنانے کی کوشش کی جاتی کہ تمام مقدمات کی یکساں دورانیوں میں سماعت ممکن بنائی جاسکتی۔ عوام اور بڑے لوگوں کے فیصلے یکساں اہمیت کے ساتھ سنے اور فیصل کیے جاسکتے۔ چیف جسٹس بندیال کا دور اس حوالے سے ہماری عدلیہ کی تاریخ کا بدترین دور رہا ہے۔ چلتے چلتے جس طرح وہ ساسوماں کے معاملے میں رسوا ہوئے ہیں وہ بہت عبرت ناک ہے۔ ساسوماں کی حمایت میں 32صفحات کا طویل رزم نامہ لکھنے کے بجائے اگر وہ یہ تسلیم کر لیتے کہ ہاں یہ میری ساس کی آواز ہے۔ وہ ایک خودمختار خاتون ہیں۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اگر انہوں نے مارشل لا کی خواہش کا اظہار کیا ہے تو وصال یار محض آرزو کی بات تو نہیں ہوتا۔ آرزو پر تو کوئی تعزیر نہیں ہوتی۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور میری عدالت، میری ساس اور میرا فیصلہ والی راہ اختیارکی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے نظام عدل کی بدمعاشیوں اور چالبازیوں کو ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ جب جھوٹے الزامات میں وہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو مہینوں عدالتی راہداریوں میں رسوا کرنے کی کوشش کرتے رہے تو ان کی ساس سے یہ حساب کیسے برابر نہ کیا جاتا۔ وہ جانتے تھے اس لیے جاتے جاتے ساس کا تحفظ کرنا انہوں نے ضروری سمجھا۔ وہ اچھے چیف جسٹس تو ثابت نہ ہوسکے لیکن ساس صاحبہ کی نظر میں ضرور سرخرو رہے۔ گھر کی راحت بڑی چیز ہے اور وہ بھی ریٹائر منٹ کے بعد تو اسداللہ خان قیامت ہے۔