خدارا اس ملک کو چلنے دیں

650

میرے پاکستانیوں، اور میرے عزیز ہم وطنوں، دونوں جملوں سے پوری قوم آشنا ہے۔ یہ دو جملے ہماری سیاست معیشت قومی معاملات اور انتخابات سب میں ایک واضح موقف کا اظہار بھی ہیں، اور ہماری سوچ پر حاوی بھی۔ وقفہ وقفہ سے یہ نعرے لگتے ہیں، قدم بڑھاؤ … ہم تمارے ساتھ ہیں۔ نگراں حکومت آئی تو تین ماہ میں انتخاب کرنے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کے لیے ہے۔ لیکن اس نے اپنے اوپر ایسی ذمے داریوں کا بوجھ لاد لیا ہے، جس کا بار منتخب حکومتیں بھی برداشت نہیں کرسکیں۔ اب ہم ملک کی معیشت کے جن کو قابو کرنے کے چکر میں ہیں، جو کسی طور پر قابو میں نہیں آتا، ملک کی تباہی میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے، جانے والوں نے کیسے کیسے منصوبے بنائے، کیسے کیسے فیصلے کیے اور ان کے ملک میں کیا اثرات ہوئے، اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں۔ ان فیصلوں سے ملک میں کیا قیامت ٹوٹی، عام آدمی کی زندگی میں کیا مشکلات آئیں، اس کی کسی کو نہ پہلے پروا تھی، اور نہ اب ہے۔ ایک زمانے میں کراچی میں بدامنی اور فسادات بڑے پیمانے پر ہوئے تو اس ساری آفت کا بوجھ، غیر قانونی تارکین وطن کو قرار دے دیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کا ہر طرف سے مطالبہ کیا جانے لگا۔ اب بھی یہی صورت حال ہے، ہمارے نگران وزیر داخلہ کا فرمان ہے کہ ’’ملک میں اسمگلنگ کے خلاف مہم جاری ہے اور کسی کو بندوق کے زور پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔ چینی کی اسمگلنگ، آٹے کی اسمگلنگ، ڈالروں کی اسمگلنگ، اسلحہ کی اسمگلنگ، پٹرول کی اسمگلنگ، سیمنٹ کی اسمگلنگ، سب کچھ برسوں سے جاری ہے، سب قانونی اداروں کی ناک کے نیچے یہ کام ہوتا رہا ہے، اس کے خلاف جن لوگوں اور اداروں کو کام کرنا تھا۔ انہیں کس نے روکا تھا۔ انہوں نے اپنی ذمے داریاں کیوں نہیں ادا کی۔ اپنا کام کیوں بند کیا، کیوں ان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا، اور اس میں کون کون ملوث ہے، یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے، سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے، لیکن سب کے لب سیئے ہوئے ہیں۔ سب خاموش ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس وقت کیوں خاموش رہی جب ڈالر کی کھیپ کی کھیپ مل سے باہر جارہی تھی۔ جن اداروں کو اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسی پر سختی سے عمل کیوں نہیں ہوتا۔ جعلی شناختی کارڈ اور دستاویزات کیسے آسانی سے بن جاتی ہیں۔ بزنس کمیونٹی کب سے شٹر ڈاؤن کیے تماشا دیکھ رہی ہے۔ کیوں کارخانہ بند ہیں۔ ایکسپورٹ کس نے روکی ہوئی ہے۔ ایل سی کھولنا، بیرون ملک ایکسپورٹ کیوں مشکل بنادیا گئی ہیں۔ ملک کی سرمایہ کاری کی پالیسی ہے کہاں جو لوگ اس ملک کی محبت میں سرمایہ کاری کرنے آئے۔ ان کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ بیرونی سرمایہ کار اپنے مفادات کے ساتھ آتے ہیں۔ انہیں ہماری خوشحالی سے زیادہ اپنے سرمائے اور منافع سے محبت ہوتی ہے۔ بھارت نے ملٹی نیشنل کمپنیوں پر کتنے چیک لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں معاہدے کرتے ہوئے حکمرانوں نے اپنے دو آنے پر نظر رکھی۔ کمیشن اور کک بیک غیر ملکی دوروں پر نظر رکھی۔ آئی پی پی کے معاہدے جن لوگوں نے کیے انہیں اس بات کی کب پروا تھی کہ یہ ایک جال ہے۔ جس میں پھنس کر ہم کبھی زندہ نہیں رہ سکیں گے۔

اب کہا جارہا ہے کہ ٹیکس کے نظام کو ڈیجیٹلائز کیا جا رہا ہے۔ لیکن ٹیکس کا نظام ہے کہاں ٹیکس وصولی بھتا خوری کا دوسرا نام ہے۔ عوام پر مسلسل ٹیکس کا بوجھ لادا جاتا ہے۔ اگر تنخواہ داروں کو ٹیکس سے نکال دیا جائے تو ہمارے ٹیکسوں کی وصولی کیا رہ جائے گی۔ ٹیکس کے محکمے کے اہلکار ٹیکس وصولی کے لیے نہیں بلکہ اپنی آمدنی رشوت اور ٹیکس بچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ کیوں ہماری افواج کو سیاست اور معیشت کے میدان میں ضمانتی کا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کیوں تاجروں کو یقین دھانی کرائی پڑتی ہے۔

اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے اہم کردار پر روشنی ڈالنا ملک کے معیشت دانوں کا کام ہے۔ یہ کام بھی ہم اپنے ملک کے محافظوں پر کیوں ڈال رہے ہیں۔ تاجروں کو سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے آسانیاں پیدا کی ذمے داری کس کی ہے۔ جائیں گی۔ منی ایکس چینجر نے ڈالروں کے کاروبار میں کیسے مال سمیٹا ہے۔ ان کو ٹیکس کے دائرے میں اب تک کیوں نہیں لایا گیا۔ ڈالر اب کیسے نیچے آگیا۔ پہلے یہ ڈنڈا کیوں نہیں چلایا گیا۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کویت چین کب تک ہمیں سہارا دیتے رہیں گے۔ 100 ارب ڈالر کب تک ہمارا ساتھ دیں گے۔ ایرانی تیل کے کاروبار اور اسمگلنگ میں کون کون ملوث ہے؟ ہمارے حساس ادارے تو رپورٹ کرتے رہتے ہیں۔ ایرانی تیل کے کاروبار میں جو 29 سیاستدان ملوث ہیں ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا۔ ایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے، ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 90 سے زائد سرکاری حکام بھی ملوث ہیں۔ موجود حکومت نے بڑے پیمانے پر ڈالرز اور دیگر اشیا کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ لیکن یہ کام منتخب حکومتوں اور نمائندوں کا ہے۔ انہیں یہ کام کرنے دیں آپ کا کام الیکشن کرانا ہے۔ اس لیے الیکشن کرائیں۔ اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کریں۔ اور اس ملک کو چلنے دیں۔