لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟

511

ملک میں کامیاب ہڑتال پر جماعت اسلامی خوش ہے، اور اسے ایک بڑی کامیابی خیال کیا جارہا ہے، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے امارت کی دوسری ٹرم پوری کرنے سے پہلے ملکی سیاست میں پہلی بار بھرپور احتجاج کیا ہے۔ گو اس احتجاج میں جماعت اسلامی سے زیادہ مہنگائی سے تنگ آئے عوام اور بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف عوامی غم و غصہ کا زیادہ دخل نظر آتا ہے۔ بجلی پٹرول کے نرخوں میں اضافے اور مہنگائی کی خلاف ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال اور مظاہرے پورے ملک میں ہوئے اور بیش تر شہروں میں بازار اور تجارتی مراکز بند رہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بجلی کے بل کو موت کا پروانہ قرار دیتے ہوئے، کہا کہ ’’حکمرانوں نے ہمیں آئی ایم ایف کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے‘‘۔ ہڑتال کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کے اکثر علاقوں میں چائے کے ہوٹل اور ٹھیلے و پتھارے بھی بند تھے۔

پاکستان کی معیشت اب ایسے جادوگروں کے ہاتھ میں ہے، جنہیں معیشت کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا، اور وہ محض اندازوں اور قرضوں اور وعدوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ لیکن عوام پر جوں جوں مہنگائی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ جادوگروں کی افسوں گری اور شعبدہ بازی کی قلعی بھی کھلتی جارہی ہے۔ یہ جادو گر جو جس جادوئی چھڑی کے بل بوتے پر ملک پر قابض ہیں، اس کے خلاف بھی عوامی غم وغصہ بلند تر ہورہا ہے۔بجلی کی گرانی میں آئی ایم ایف سے معاہدہ اپنی جگہ لیکن اس اضافے کی ایک و جہ ’غیر منصفانہ تقسیم‘، بااثر طبقے کو اربوں روپے کی مفت بجلی کی فراہمی، بجلی چوری بھی ہے۔ پچھلے دو سال میں جس میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم اے حکومت کرتا رہا ہے۔ دو دفعہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے اور ایک مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتیں بڑھیں ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں بعد کواٹرلی فیول ایڈجسٹمنٹ کے ضمن میں بجلی کی قیمتوں میں تقریباً پانچ روپے فی یونٹ اضافہ ہونے والا ہے۔ ملک کی اشرافیہ نہ ٹیکس دیتی ہے، اور نہ ہی اپنی مراعات سے دستبردار ہونا چاہتی ہے۔

حکومت نے بہت سارے ٹیکسوں کا بوجھ بھی بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈال دیا ہے۔ جس سے بلوں میں 40 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ کراچی میں بجلی کا ایک کمرشل یونٹ ٹیکسوں سمیت 77 روپے کا پڑتا ہے اور بغیر ٹیکسوں میں 53 روپے کا ہوتا ہے۔ 120 گز کے گھر کا اوسط بل 20 ہزار روپے سے تجاوز کرتا جارہا ہے۔ سولر انرجی کے متبادل ذریعے سے کچھ امید بندھی تھی کہ عوام کو کچھ ریلیف ملے گا۔ لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اس پر بھی اوس پڑ گئی ہے کہ ایک سولر پینل کی فکس پرائس جو آج سے دو ہفتے پہلے تک 37 ہزار روپے تھی اب 46 ہزار روپے ہو گئی ہے۔ تاجر طبقہ یوں بھی پریشان ہے کہ ایل سی کھولنا بہت مشکل ہوگیا ہے، ڈالر کا انتظام بھی مارکیٹ سے ڈالر خرید کر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب پورے ملک میں اسمگلنگ عروج پر ہے، اربوں کھربوں روپے کی اسمگلنگ، افغانستان، ایران سے کی جارہی ہے، اور اس میں بھی بڑے حصے دار وہی ’’جادوگر‘‘ ہیں۔ جو ملک کو سنوارنے اور اس کے ہر مسئلہ کو حل کرنے کا جادوائی فارمولہ رکھتے ہیں۔ ملک کی برآمدات مسلسل کم ہورہی ہیں۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس (پی بی ایس) نے پچھلے ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ٹیکسٹائل برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 11 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ملک کے کارخانے بجلی کی مہنگائی کی وجہ سے بند پڑے ہیں، اس لیے سوتی دھاگے کی برآمدات میں 35.96 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بھی بگڑتی جارہی ہے، کراچی میں چوری لوٹ مار ڈکیتی کے وارداتیں دن دھاڑے ہورہی ہیں، نگران حکومت کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں، اور وہ کوئی بھی فیصلہ اپنے طور پر نہیں کرسکتے، وہ ہر کام کرنے سے پہلے ہدایات کا انتظار کرتے ہیں۔ کابینہ کے بیش تر ارکان اجلاس میں منہ بند رکھتے ہیں، اور اپنی 60 دن یا اس سے زیادہ کی نوکری کو محفوظ اور کارآمد بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ چند دن پہلے کراچی میں ایف بی آر نے اپنے بڑے افسران کی ایک میٹنگ طلب کی اور اس میں انہیں ٹیکس وصولی کے ٹارگٹ دیے ہیں، اور کہا گیا ہے کہ یہ ٹارگٹ ہر حال میں پورے کرنے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا نزلہ بھی کراچی کے تاجروں پر گرے گا۔ اندرون سندھ بھی عوام میں بڑی بے چینی ہے، لوگ امن و امان کے مسائل سے دوچار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سندھ میں پنجاب اور سرحد سے نئے افسران لاکر ایک بڑا آپریشن شروع کیا جائے گا۔ آپریشن کچے اور پکے میں سب جگہ ہو گا، ایک بچی کے سفانہ قتل پر بھی عوامی اضطراب بڑھا ہے۔یوں عوام میں مسلسل احساس محرومی بڑھ رہا ہے، سب کا غم وغصہ ان مراعات یافتہ حکمرانوں، سیاست دانوں، ججوں، اعلیٰ بیوکریسی، اور ان جادوگروں کی طرف بڑھ رہا ہے، جو بیرون ملک جائداد اور کاروبار کر رہے، پاکستان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں، اور بھوکے ننگے عوام سے کہتے ہیں کہ یہ بھوک لگنے پر کیک کیوں نہیں کھاتے۔