بین المذاہب ہم آہنگی، وقت کی ضرورت

658

گزشہ دنوں جڑانوالہ میں جو افسوسناک واقعات پیش آئے وہ ملکی تاریخ کا ایک تاریک پہلو ہے قرآن پاک کی توہین کے ساتھ جڑے ہوئے اس سانحہ پر ہر مکتبہ فکر نے مذمت کی ہے ایسے واقعات عموماً کسی سازش کے پس منظر میں ہوتے ہیں جس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرکے اس کے سدباب کے لیے قومی و حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ چناں چہ اس تناظر میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی انیق احمد اور امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے باہمی رواداری کے لیے قومی کنونشن و کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ یہ کنونشن و کانفرنس ملک میں امن و رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے نیک فعال ثابت ہوگی اور اقلیتوں سے متعلق اسلام اور آئین پاکستان میں جو حقوق و تحفظ اقلیتوں کو دیا گیا ہے اسے قرآن و سنت و تاریخ اسلام کے حوالے سے اُجاگر کیا جائے گا۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جس کے آئین میں اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا ہے اور بانی پاکستان قائداعظم نے اپنی تقاریر میں کہا ہے کہ ’’ہماری تاریخ اور ہمارے پیغمبرؐ نے غیر مسلموں کے ساتھ عادلانہ و منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک کیا ہے‘‘۔ ان کی 11 اگست کی مشہور تقریر اقلیتوں کے حقوق کی ضامن ہے۔ اسلام میں میثاق مدینہ مشہور و معروف پہلا معاہدہ ہے جو غیر مسلم یہود اور مسلمانوں کے مابین ہوا، جس کی ایک شق تھی کہ ’’جو قبیلے مسلمانوں کے دوست ہیں، یہودی بھی انہیں اپنا دوست سمجھیں گے اور جو قبیلے مدینہ کے یہودیوں کے حلیف ہیں مسلمان انہیں اپنا بھی حلیف سمجھیں گے‘‘ الغرض اسلام نے ہمیشہ اقلیتوں سے رواداری کا ثبوت دیا ہے اور ان کے حقوق کا تعین کیا ہے جو کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی مضبوط اور قابل تقلید مثال ہے۔
اسلام ہی ہے جو غیر مسلم اقلیتوں کے لیے تاریخ میں سنہری روایات رکھتا ہے اور تعصب و نفرت کے بجائے انسانیت و انسانی شرف کو اہمیت دیتا ہے اور بلاتفریق مذہب و ملت انسان کو مذہبی اور وجدانی شکوک و شبہات پر بھی عقلی و علمی دلائل کے ساتھ سوالات اٹھانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اسلام حریت فکر و آزادی ضمیر کی روشن راہ سے روشناس کراتا ہے، دیگر مذاہب کے ساتھ امن و ہم آہنگی و رواداری اور برداشت کی فضا پیدا کرنے میں تاریخی کردار ادا کا حامل رہا ہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں کبھی جبر و اکراہ سے کام نہیں لیا گیا بلکہ قرآن کریم نے واضح اعلان کیا ہے کہ ’’ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں، سیدھی راہ غلط راہ سے ممتاز کرکے دکھائی جاچکی ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) خلفائِ راشدینؓ و اسلامی حکومتوں نے ہمیشہ قرآن پاک کی اس ہدایت کو غیر مسلموں سے سلوک کے حوالے سے رہنما اصول کے طور پر رکھا ہے اور اس ہدایت کی سختی سے پابندی کی ہے۔ اسلام کی اولین فتوحات میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کے مذہب و عقیدہ و عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا۔ تاریخ میں غیر مسلم محققین و مورخین نے بھی اسلام کے اس کردار کو تسلیم کیا ہے۔ چناں چہ نامور مورخ و محقق پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ اپنی تصنیف دعوتِ اسلام (Preaching of Islam) میں تصدیق کرتے ہیں کہ ’’پہلی صدی ہجری کے مسلمان فاتحین نے عیسائیوں سے جس رواداری کا مظاہرہ کیا اور جس کا سلسلہ ان کے بعد آنے والی نسلوں نے بھی جاری رکھا ان کو دیکھتے ہوئے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جن عیسائی قبائل نے اسلام قبول کیا انہوں نے بررضا و رغبت ایسا کیا‘‘۔ (مذکورہ حوالہ صفحہ51) خود پیغمبرؐ اسلام نے اہل نجران کے عیسائیوں کو جو صلح نامہ دیا تھا اس میں انہیں اپنے مذہب و عقیدہ کے اظہار کی مکمل آزادی دی تھی۔ خلیفہ اسلام دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے بھی اہل بیت المقدس کو مذہبی آزادی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ان کی صلیبوں اور ساری عیسائی عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوگا۔ اسلامی تاریخ کے نامور سپہ سالار خالد بن ولیدؓ نے اقلیتوں کے حوالے سے تاریخی الفاظ کہے کہ ’’ان کا کوئی معبد گرجا گھر منہدم نہ کیا جائے، وہ رات دن جس وقت چاہیں اپنے ناقوس بجائیں ان کو حق ہوگا۔ اپنے ایام میں صلیبیں نکالیں، ان کو مذہب بدلنے پر مجبور نہ کیا جائے نہ ہی ان کے مذہبی قوانین میں مداخلت کی جائے‘‘ (ماخوذ ازکتاب الجہاد فی الاسلام‘‘ از مولانا مودودیؒ)
ان تمام دلائل سے واضح ہے کہ اقلیتوں کو قانون کے مطابق مکمل تحفظ اسلامی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حالیہ بیرونی و اندرونی ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے جو ملکی استحکام و سلامتی و باہمی اتحاد و یکجہتی کے لیے اشد ضروری ہے تا کہ آئندہ جڑانوالہ جیسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔ تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ وہ جڑانوالہ جیسے واقعات کے پس پردہ سازشوں سے قوم کو آگاہ رکھیں اور قرآن پاک کی توہین کرنے والے اسلام و ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ان سازشوں میں بیرون ملک کے عناصر کے ساتھ اندرون ملک سہولت کاروں کی بھی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی اقلیتی کنونشن و کانفرنس کو تمام مکاتب فکر و مذہبی جماعتیں کامیاب بنائیں تا کہ ملک میں باہمی رواداری و یگانگت و بین المذاہب ہم آہنگی کو مضبوط بنایا جاسکے۔