کرائے دار

712

ہم دوستی نہیں کرتے عشق کرتے ہیں لیکن کرائے کے گھر سے بیزاری کی وجہ ہر گز یہ نہیں تھی جو اس شعر میں بیان کی گئی ہے

ہمارا عشق ظفر رہ گیا دھرے کا دھرا
کرائے دار اچانک مکان چھوڑ گیا

چنددن پہلے ہی ہم کرائے کے نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔ ایک محلے والے سر راہ مل گئے۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا۔ جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ’’اخباری دنیا میں دھوم ہمارے قلم کی ہے‘‘ سنی ان سنی کرتے ہوئے بولے ’’آپ حنظلہ صاحب کے کرائے دار ہیں نا‘‘۔ بات سے دل پر گھونسا سا لگا تھا۔ گویا ہماری کوئی شناخت ہی نہیں۔ کوئی پہچان ہی نہیں۔ کرائے دار ہونا ہمارا واحد حوالہ ہے۔ کرائے دار ہونا اتنا ہلکا ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ بلکہ ہم خوشی محسوس کرتے تھے کہ اس حوالے سے ہی سہی چند عظیم شخصیات سے ہمارا تعلق تو ہے۔ بلی ماراں کی پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں کا وہ مکیں بھی جسے یہ زعم تھا ’’ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے‘‘ کرایہ دار تھا۔ نہ جانے کہاں پڑھا تھا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی جاوید منزل میں کرائے پر رہتے تھے۔ جاوید منزل علامہ اقبال کی بیگم نے ان کے اصرار پر مرنے سے پہلے جاوید اقبال کے نام ہبہ کردی تھی اور علامہ بطور کرائے دار جاوید اقبال کو ہر ماہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی آٹھ نوسال کے تھے جب اپنے چچا کے ایک کرائے دار کی بیوی کا حسن ان کی آنکھوں میں سما گیا تھا۔

جب بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کا سوچا بشیر بدر مانع آگئے۔ لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں۔۔ پھر خیال آیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں میٹر ریڈر اپوزیشن لیڈر بن جاتے ہیں، ایک سینما سے ترقی کرکے آدمی صدر مملکت بن سکتا ہے۔ فائلوں کو پہیے لگا کر آدمی بستیوں کی بستیاں تعمیر کرتا چلا جاتا ہے۔ وہاں ایک گھر بنانا کیا مشکل ہے۔ بس ذرا اندر سے ٹوٹنا ہوگا۔ ایک ایسے کالم نگار جن کے اندر نے ٹوٹنے سے انکار کردیا تھا، انہوں نے اپنے کسی کالم میں وزیر اعظم کو چور لکھ دیا۔ تھانے میں طلبی ہوگئی۔ تھانیدار نے پوچھا ’’اوئے تونے ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو چور لکھا ہے؟‘‘ کالم نگار نے بات بدلنے کے لیے کہا ’’جی! وہ تو میں نے دوسرے ملک کے وزیراعظم کو چور لکھا ہے‘‘۔ تھانیدار نے غصہ سے کہا ’’اوئے ہمیں بے وقوف سمجھتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کس ملک کا وزیر اعظم چور ہے‘‘۔

وہ لوگ جنہیں باپ دادا سے گھر ورثے میں مل جاتے ہیں وہ اندازہ نہیں کرسکتے اپنا گھر بنانا کتنا دشوار کام ہے۔ 80گز اور 120گز کا مکان تو درکنار دو تین کمرے کا فلیٹ خریدنا بھی کتنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ اچھے خاصے عزت دارگھرانوں کی بچیوں کے رشتے محض کرایہ دار ہونے کی بنا پر انکار کردیے جاتے ہیں۔ عزیز واقارب کی نظر میں آپ ان کے ہم پلہ نہیں ہوتے۔ بار بار اسکول بدلنے سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ کرایہ پابندی سے دینے کے باوجود ہر ماہ مالک مکان کسی نہ کسی بات پر کرایہ دار کی عزت نفس مجروح کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ اچانک مالک مکان کی کوئی گمنام اولاد جس کا اس نے کبھی تذکرہ بھی نہ کیا ہو کہیں سے برآمد ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے مالک مکان دھمکی دے جاتا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر گھر خالی کردیجیے یا پھر کسی بچے یا بچی کی شادی کی وجہ سے مالک مکان کو فوری طور پر اس گھر کی ضرورت ہے جس میں آپ کرایہ دار ہیں۔ گیارہ ماہ گزرنے کے بعد چونکہ آپ کے ایگریمنٹ کی مدت ختم ہورہی ہے لہٰذا دوچار ماہ پہلے ہی مالک مکان آپ کو وارننگ دینا شروع کردیتا ہے کہ بندوبست کر رکھیے آپ کو فلاں تاریخ کو گھر خالی کرنا ہے۔ آپ گھر خالی کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو پہلے اہل محلہ آپ سے دریافت کرنا شروع کردیتے ہیں، پھر محلے کے شرفا بھیجے جاتے ہیں، آپ ان کے قابو میں بھی نہیں آتے تو مالک مکان کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔غنڈے اور بدمعاش آ آکر آپ کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیتے ہیں۔

حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عارضی اقتدار اور عارضی اقتدار کے ایوانوں کو ذاتی مکان سمجھ لیتے ہیں۔ مستقل قیام گاہ باور کرتے ہیں۔ بقول راحت اندوروی بھول جاتے ہیں:

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

نواز شریف کو اس عارضی گھر سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے سازش کرکے بے دخل کیا تو ان کی حیرت دیدنی تھی۔ مالک مکان سے ان کا ایگریمنٹ بھی ختم نہیں ہوا تھا، گھر کے معاملات بھی درست سمت میں آگے بڑھ رہے تھے۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا تھا، سی پیک گیم چینجر ثابت ہونے والا تھا لیکن بہرحال کرائے کا گھر کرائے کا ہی ہوتا ہے۔ مالک مکان ایک نئے کرائے دار کے جھانسے میں آگیا۔ گھر اس کے سپرد کردیا۔ اس کرائے دار نے وہ جھاڑو پھیری کہ مالک مکان کو کرپشن کی فائلیں لے کرخود کرائے دار کے پاس حاضریاں لگانی پڑیں کہ حضور آپ کو شرمندگی ہوگی لیکن کرپشن کا کھرا بیگم صاحبہ تک جارہا ہے۔ یہ کرائے دار گھر کو اس حدتک ذاتی مکان سمجھ بیٹھا کہ خالی کرنے کے نام پر مرنے مارنے اور بے عزت کرنے پرتل گیا۔ نئے کرائے دار نے اپنے برتن دروازے پر لاکے رکھے، پولیس وین آئی تب کہیں جاکر گھر خالی ہوا۔ نئے کرائے دار نے وقت مدت پر گھر خالی تو کردیا لیکن مالک مکان سے گارنٹی لی کہ آئندہ بھی مکان اسی کو کرائے پر دیا جائے گا۔ نوے دن کے لیے عارضی طور پر جن کو گھر دیا گیا ہے وہ بھی لگتا ہے مقررہ مدت سے زیادہ ہی قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مسئلہ محض کرائے داروں کا نہیں ہے مالک مکان کی ذہنیت بھی ایسی بن گئی ہے کہ وہ کسی کو ٹکنے ہی نہیں دیتا۔ حالانکہ کرایہ دار پانچ سال کا ایگریمنٹ کرکے اور عوامی حمایت کی قیمت دے کر اس گھرکا رہائشی بنتا ہے جس کے باہر وزیراعظم ہائوس کی تختی لگی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈیڑھ دوسال میں ہر مرتبہ وزیراعظم ہائوس خالی کرالیا گیا۔ یہی کیفیت نواز شریف کے ساتھ رہی۔ ایک مرتبہ انہوں نے تڑی دکھائی تو زنداں میں بند کردیے گئے، تقدیر نے یاوری کی اور وہ بھٹو جیسے انجام سے بچ گئے۔ آصف علی زرداری نے ایوان جمہوریت کا ایک حصہ اصل مالکان کے لیے خالی کردیا تھا اور امور خارجہ اور دفاع کے کمرے مالکان کے قبضے میں دے دیے تھے پھر بھی میمو گیٹ کی صورت انہیں مالک مکان کی دھمکیوں کا سامنا رہا۔ اگلی مرتبہ نواز شریف نے بھی یہ دونوں کمرے مالکان کے قبضے میں ہی رہنے دیے ہیں لیکن پھر بھی انہیں ڈان لیکس جیسی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کا معاملہ یہ رہاکہ وہ خود ہی اپنے خلاف سازشوں میں مصروف ہوگئے۔ گھر ہی کو برباد کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ان کی تو تکار اور خطرناکی کو دیکھتے ہوئے آئینی اور قانونی طور پر گھر ان سے خالی کروانا پڑا۔

جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ثابت ہورہا ہے جو مستحکم حکو متیں دینے میں ناکام ہے۔ حکومتوں کے لیے دل جمعی سے اپنے منصوبوں پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جمہوریت غربت اور دیگر عوامی مسائل کے حل میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت چاند پرتو پہنچ گئی لیکن غربت ختم کرنے میں ناکام، دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔ رہے مغربی ممالک تو ان کی خوشحالی جمہوریت کی بنا پر نہیں دنیا بھر میں ان کے استعماری کردار کی وجہ سے ہے۔ انسانیت کے مسائل کاحل صرف اسلام کے پاس ہے۔