سانحہ جڑانوالہ اور سرمایہ دارانہ جمہوری دنیا کی روایت

563

جڑانوالہ میں اللہ کی آخری کتاب کی بے حرمتی کی گئی جو یقینا کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ جڑانوالہ سانحے کا یہ پہلوکسی بھی طور نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ کم اہم ہے لیکن اس کے ردعمل میں جو کچھ کیا گیا، مسیحی بستیوں کو جس طرح برباد کیا گیا، چرچ جلائے گئے وہ بھی ناقابل برداشت ہے جسے کسی طور نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔ دونوں رویے قابل مذمت ہیں۔

جڑانوالہ کی مسیحی برادری گزشتہ 75برس سے پا کستان کے مسلم معاشرے کا حصہ ہے۔ جڑانوالہ کے مسلمانوں کی طرف سے انہیں کبھی کسی بھی مذہبی یا سماجی پر یشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا پھر ایسے پُر تشدد واقعے کا دروازہ کیوں کھلا؟ دونوں ہی طرف سے غلطی کی گئی اور عظیم غلطی کی گئی کسی بھی مسلم معاشرے میں جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ مسیحی برادری اور مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر لمحہ فکر ہے۔

جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کی تعداد مجموعی آبادی کے پانچ فی صد کے لگ بھگ ہے جن میں سے زیادہ تر لوگ عیسیٰ نگری میں آباد ہیں۔ 16اگست صبح نو بج کر بیس منٹ پر سینما چوک کے قریب جامع مسجد مہتاب کے لائوڈ اسپیکر پر ایک شخص نے مسیحی برادری کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف جمع ہونے اور احتجاج کرنے کی ترغیب دی۔ جلد ہی یہ اعلان جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ اس دوران پانچ سو سے چھے سو افراد ڈنڈوں، پتھروں اور پٹرول کی بوتلوں کے ساتھ سینما چوک کے قریب اکٹھے ہوگئے اور نعرے بازی شروع کردی۔ نعروں میں مسیحی بستیوں اور چرچ پر حملہ کرنے پر اکسایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہجوم نے توڑ پھوڑ شروع کردی۔ گھروں سے سامان نکال کر باہر سڑک پر پھینک کر جلانا شروع کردیا۔ مشتعل افراد چرچ میں بھی داخل ہوگئے اور وہاں بھی آگ لگانا شروع کردی۔ اس واقعے میں مجموعی طور پر 86مکانوں اور 19چرچوں کو توڑا اور آگ لگائی گئی۔

مسیحی برادری کے جس فرد نے اللہ کی آخری کتاب کی بے حرمتی کی، مسلمانوں کے جس ہجوم نے مسیحی برادری پر حملہ کیا، دونوں نے اپنی دنیا اور آخرت برباد کی ہے۔ یہ یکساں طور پر جنونی ذہنیت کے مظاہر ہیں۔ دنیا بھر خاص طور سے یورپی عیسائی ممالک کے جنونی افراد کی طرف سے آئے دن قرآن کی بے حرمتی اور رسالت مآبؐ کی توہین کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات محض جنونی افراد کا انفرادی عمل نہیں ہے متعلقہ ممالک کے قوانین، عدالتیں اور حکومتیں ایسے واقعات کی نہ صرف اجازت دیتی ہیں بلکہ ان کی سر پرستی بھی کرتی ہیں۔ اذان کا معاملہ ہو، مساجد کے میناروں کا یا حجاب کا مسلمانوں پر حملے معمول ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں الحمدللہ نہ مغربی عیسائی دنیا کی مثل ہے اور نہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کی۔ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں مسلم آبادیوں کے درمیان امن اور سکون سے رہتی آئی ہیں۔ پاکستان میں جو افراد اور جماعتیں فرقہ واقعات میں ملوث ہیں یا گروہی سوچ رکھتی ہیں پا کستان کا مسلم معاشرہ بحیثیت مجموعی انہیں قبول نہیں کرتا۔ جڑانوالہ کا واقعہ اس کی مثال ہے۔

جڑانوالہ واقعہ کی مسلمانوں کے ہر طبقہ فکر نے مذمت کی ہے۔ پاکستان کا ہر مسلمان اس واقعہ پر شرمندہ ہے۔ اس کی بھرپور مذمت کرتا نظر آتا ہے۔ ہر فرد اور جماعت آگے بڑھ کر متاثرین کے آنسو خشک کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ علماء کرام مسیحی پادریوں کے شانہ بشانہ چرچ میں بیٹھ کر مسیحی آبادی کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے مستقبل کے چیف جسٹس سے لے کر امیر جماعت اسلامی اور دیگر قائدین جڑاانوالہ کا دورہ کررہے ہیں اور اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ دکھ کی اس گھڑی میں مسیحی آبادی تنہا نہیں ہے پورا پاکستان ان کے دکھ میں شریک ہے۔ پاکستان علماء کو نسل نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مسیحی برادری کے نقصانات کا ازالہ کرے۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم نے کہا ’’جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر دیکھ کر میں پریشان ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے‘‘۔ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ جڑانوالہ میں سرکاری عمارتوں اور مسیحی برادری کی املاک کی بحالی کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی اور اس میں اگلے تین چار روز لگیں گے۔

جن جتھوں نے مسیحی آبادی پر حملہ کیا وہ ریاست پاکستان کے بھی مجرم ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے بھی۔ یہ وہ شیطان ہیں جنہوں نے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کیا ہے۔ اسلام ہر گز ہرگز عوامی جتھوں کو سزا دینے کا اختیار نہیں دیتا۔ خلافت میں ریاست کی ذمے داری قرار پاتی ہے کہ وہ ہر شہری کی جان کی حفاظت کرے چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، زبان یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمؐ فرمایا: ’’جس نے کسی ایسے ذمی کو قتل کر دیا جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پناہ دے رکھی ہو، تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)

مسلمان ملک کے غیرمسلم باشندے ’’ذمی‘‘ کہلاتے ہیں۔ اسلامی حکومت ان کے حقوق کی حفاظت کا ذمّہ اٹھاتی ہے۔ یہ حقوق انہیں اللہ کے حکم سے اور رسول اللہؐ کی ہدایات کی روشنی میں دیے جاتے ہیں، گویا ان کا ذمّہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اٹھایا ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ اور رسول کی ذمے داری کی ادائیگی میں خلل ڈالے۔ جنت کی خوشبو نہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جہنم میں جائے گا۔ اسلام کی یہی تعلیمات تھی جن کی وجہ سے خلافت عثمانیہ میں یورپ کے یہودی عیسائیوں سے پناہ لینے کے لیے استنبول جاتے تھے۔

اس واقعے میں ملوث ایک ایک فرد کو اگلے دوچار دن میں ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔ جو گھر جلائے گئے ان کی تعمیر بھی شروع کردی گئی ہے۔ چرچوں کی بحالی کا کام بھی آغاز ہے۔ یہ متاثرین پر احسان نہیں ہے۔ مسلم معاشرے میں ان کا حق ہے۔ مسیحی برادری کو پورا انصاف ملے سب کی آرزو ہے اور ان شاء اللہ ملے گا۔ تاہم اس پورے واقعے میں اگر کسی کو انصاف نہیں ملے گا تو وہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔ قرآن کی توہین کا واقعہ ابھی تک دھندلکوں میں ہے۔ اس کی تحقیق پورے طور پر نہیں کی گئی۔ اس کے ملزمان کا کیا ہوا۔ گرفتار ہوئے یا نہیں کسی کو خبر نہیں۔ اگر گرفتار بھی ہوگئے کوئی عدالت انہیں قرار واقعی سزا دینے میں دلچسپی نہیں لے گی۔ اگر کسی عدالت نے مدت بعد سزادے بھی دی تو پورا یورپ ملزمان کی حمایت میں کھڑا ہو جائے گا۔ سزا کو انسانی حقوق سے منسلک کردیا جائے گا۔ اور پھر ان ملزمان کو خاموشی سے کسی طیارے میں سوار کراکر بصد ادب واحترام کسی مغربی ملک روانہ کردیا جائے گا جہاں کے اعلیٰ حکام ان کا استقبال کریں گے۔ انہیں شہریت دی جائے گی۔ وزیراعظم ان سے ملاقات کریں گے اور انہیں ہر طرح کے تحفظ کا یقین دلایا جائے گا۔ اس سرمایہ دارانہ جمہوری دنیا کی یہی روایت ہے۔