بجلی کے خوفناک نرخ اور شہریوں کا اضطراب

1514

پاکستان کے ایک اہم صنعتی شہر فیصل آباد کی چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کے تاجروں کے ایوان کے رہنما نے معیشت کی عملی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کا شعبہ لڑکھڑاتی معیشت کو ڈبو رہا ہے، بجلی کے موجودہ نرخ زراعت پیداوار اور برآمدات کو ختم کر رہے ہیں، جب کہ عوام تو دیوالیہ ہو ہی چکے ہیں۔ نیز گیس اور ایندھن کی قیمت میں مسلسل اضافے اور کرنسی کی گرتی قیمت کی وجہ سے مقامی برآمد کنندگان بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں رہے ہیں اور حریف ممالک ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ بجلی گیس کے بل اور پٹرول کی قیمت میں ماہانہ اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ کاروباری طبقے کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا، المیہ یہ ہے کہ عوامی اضطراب اور ہولناک حالات کی مزاحمت سیاسی جماعتوں اور منتخب پارلیمانی اداروں میں ختم ہو گئی ہے۔ عوامی اضطراب کی علامت کا ایک مظہر آزاد کشمیر سے بلند ہونے والی آواز ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق آزاد کشمیر میں مساجد سے بجلی کے بل جمع نہ کرانے کے اعلانات ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ عوام نے غیرمنظم مزاحمتی اور احتجاجی آوازیں بلند کرنی شروع کر دی ہیں اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے بائیکاٹ کی مہم کا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ ایک طرف حکومت بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے اور اس میں کمی آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہر سطح پر اس صورت حال کے خاتمے کے لیے سیاسی مزاحمتی تحریک کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، لیکن پاکستان میں شہری آزادیوں، سیاسی جماعت کے تحت عوامی حقوق کی جدوجہد پر قدغنیں عاید کی جارہی ہیں، اس منظر نامے میں سیاسی قوتوں کی پسپائی، بے حسی اور ناکامی کے خطرناک اثرات ظاہر ہوں گے۔ حکومتی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ مہنگی بجلی بنا کر سستی بجلی فروخت نہیں کر سکتے، لیکن وہ اس بات کا جواب نہیںدیتے کہ بجلی کی پیدواری لاگت 3 روپے فی یونٹ سے 50 روپے فی یونٹ کیسے بڑھ گئی۔ آزاد کشمیر میں مزاحمت کے عمل آغاز ہوا ہے اور وزیراعظم آزاد کشمیر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں، لیکن کیا ’’آزاد پاکستان‘‘ میں طاقتور طبقات اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔