پٹرول کی آگ

473

جگہ جگہ لگے جماعت اسلامی کے بینر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ سودا گرو کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے۔ ہم ساڑھے تین کروڑ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی تو کجا پاکستان کے عوام بھی گنتی بھول چکے ہیں۔ چھوٹی موٹی وارداتوں میں مگن عوام کسی نہ کسی طرح مہنگائی سے نمٹتے رہتے تھے لیکن اب یہ عالم ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ اور بجلی کے بلوں نے جس طرح ان کے کس بل نکالے ہیں اس کے بعد وہ سب کچھ بھول چکے ہیں۔ حالات کی اصلاح اور دن سدھرنے کے تمام امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ تنزلی کے جس مقام پر ہم آچکے ہیں کوئی آئے کوئی جائے یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔

نہ میں بدلا نہ تم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبار انقلاب آسماں کرلوں

تاتاری ایک غیر مہذب، وحشی، جنگجو اور ظالم قوم کی حیثیت سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ چنگیزخان کی یہ اولاد وسط ایشیا میں صحرائے گوپی سے اٹھی اور یلغار کرتی ہوئی آدھی دنیا فتح کر بیٹھی۔ برصغیر میں یہ دلّی تک آکر پلٹ گئے۔ ان کی فتوحات میں ان کی سفاکیت کا بہت دخل تھا۔ مگر ان کی سفاکیت بھی کچھ اصولوں کے تابع تھی۔ تاتاری جب کسی قوم پر حملہ کرتے تو محاصرہ کرنے کے بعد تین دن تک انتظار کرتے۔ محاصرے کے پہلے دن سفید جھنڈا لہرایا جاتا جس کا مطلب ہوتا کہ اگر اہل شہر ہتھیار ڈال دیں، شہر کے دروازے کھول دیں تو کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا سب کے لیے امان ہے۔ اگر شہر کے دروازے نہ کھلتے تو دوسرے دن لال جھنڈا لہرایا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ لڑنے والوں کے لیے امان نہیں ہے باقی سب کے لیے امان ہے۔ اس پر بھی شہر کے دروازے نہ کھلتے تو تیسرے دن سیاہ جھنڈا لہرا دیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب کسی کے لیے امان نہیں۔ بات کچھ لمبی ہوگئی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نگراں حکومت نے آکر تو عوام کو تین دن بھی سانس لینے کی مہلت نہ دی اور آتے ہی 16اگست کو پٹرول بم سے حملہ کردیا اور پٹرول کی قیمتوں میں 17روپے 50پیسے اور ڈیزل کی قیمتوں میں بیس روپے فی لٹر تک اضافہ کردیا۔ جس لگن سے یہاں عوام کو لوٹا گیا ہے اس کے بعد جابجا دھواں اٹھ رہا ہے۔ نگراں حکومت نے اس دھوئیں کو کم کرنے کے بجائے آتے ہی شعلے مزید بھڑکا دیے۔

کاکڑ حکومت آجانے کے بعد ان سیاسی حلقوں کو تو آرام آگیا جو ’’کون بنے گا نگران وزیراعظم‘‘ کا کھیل کھیل رہے تھے۔ کیسے کیسے لوگ اس کھیل میں امیدوار تھے۔ اس سے سکون ملا تو نگراں کابینہ زیر بحث آگئی۔ خواہش، گمان اور کوششوں کی اس دوڑ میں کون سلیکٹ ہوا کون مسترد ہوا دوچار دن میں فیصلے سامنے آگئے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی ہاتھ صاف کرکے اٹھ گئی۔ پی ڈی ایم کی حکومت کی کارگردگی کی بنا پر جو تالی یا گالی ان کی طرف آتی تھی وہ سلسلہ بند ہوگیا۔ شہباز حکومت کی بے قراری کو بھی قرار آیا۔ تحریک انصاف کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو جس طرح ان کا کارنامہ باور کیا جارہا تھا اس سے نجات ملی پھر جس طرح انہیں اسٹیبلشمنٹ کا حصہ سمجھا جارہا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے کارنامے ان کے کھاتے میں ڈالے جارہے تھے اس تنقید میں بھی کمی آئی۔

اعلیٰ عدلیہ کے وہ جج صاحبان عمران خان کی محبت میں جو فیصلوں کی سہولت کاری میں مصروف تھے ان کا سوفٹ ویر اپ ڈیٹ ہوا یا وہ ہوائوں کارخ تاڑ گئے اس طرف بھی مشکوک سناٹے چھا گئے۔ تحریک انصاف کا معاملہ دیگر تھا۔ عمران خان نے انہیں گالم گلوچ اور بدتمیزی کی جس راہ پر ڈال دیا تھا وہ اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ چودہ اگست کو بیرون ملک جس کا بدترین مظاہرہ کیا گیا۔ لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر اور قونصلیٹ کے سامنے مظاہرے کیے گئے۔ پاکستان کا جھنڈا ہٹاکر تحریک انصاف کا جھنڈا بلند کیا گیا، نواز شریف کے فلیٹس کے باہر بدتمیزی کی گئی۔ حنا صاحبہ کو بھی نہ بخشا گیا۔ غرض ہر کسی کو کسی نہ کسی درجے میں فریب آمیز نجات ملی لیکن پاکستان کے عوام کو کیا ملا؟ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی کو قرار نہیں آیا تو وہ پاکستان کے عوام تھے جن کی بے چینیوں اور بے تابیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے جنہیں جتلادیا گیا کہ وہ اور ان کے مفاد کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔ ان کی پریشانیوں کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ان کا مفاد کہیں موضوع ہے اور نہ کسی کو ان کی فکر ہے۔

پاکستان کی معیشت کے بلبلے کے ساتھ گزشتہ برسوں جو کچھ کیا گیا جو تساہل اور غفلت برتی گئی جس طرح برباد کیا گیا، آئی ایم ایف سے معاہدہ توڑا گیا اس کے بعد معیشت کسی بھی پا کستانی حکومت کے بس سے باہر کا معاملہ ہے۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے میں پچاس روپے فی لٹر تک پٹرولیم لیوی لگانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نگراں حکومت کے آتے ہی دوسرے روز پاکستانی روپیہ گراوٹ میں چلا گیا اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت 300روپے سے بڑھ گئی۔ انٹر بینک میں بھی ڈالر کی قیمت چار روپے اضافے کے ساتھ 292روپے پچاس پیسے چلے گئی۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا۔ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا گیا ہے اس کی مدت نو ماہ ہے۔ چند مہینے بعد حکومت کو ایک اور پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے پاس واپس جانا ہے۔ عوام کا کچومر نکلتا ہے نکلے لیکن آئی ایم ایف ناراض نہ ہو۔ ان وجوہات کے پیش نظر یہ اضافہ ناگزیر تھا۔ جس کے لیے حکومت نے سفید، لال اور کالے جھنڈے لہرانے کا تکلف کیے بغیر عوام پر یلغار کردی۔ جو لوگ اس پر احتجاج کررہے ہیں وہ آداب غلامی سے ناواقف ہیں۔

قدرت اللہ شہاب نے فاطمہ جناح کی خود نوشت کے حوالے سے رقم کیا ہے کہ قائداعظم زیارت میں آخری سانسیں لے رہے تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیے آئے تو دم توڑتے ہوئے قائد نے ان سے ملنے سے انکار کردیا اور اپنی بہن سے کہا یہ لوگ یہ دیکھنے کے لیے آئے ہیں میں کتنی دیر اور زندہ رہ سکتا ہوں۔ یہی معاملہ عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کبھی پٹرول کی قیمتوں میں پندرہ روپے، بیس روپے، دس روپے پانچ روپے بڑھاکر، کبھی بجلی کے نرخوں میں دو، چار پانچ، سات روپے فی یو نٹ بڑھا کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام میں ابھی کتنا دم باقی ہے۔ یہ اور کتنا ظلم سہہ سکتے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا ہے کہ عوام ظلم سہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جو چاہو کر لو انہوں نے ووٹ ہمیں ہی دینا ہے۔ عوام کے پاس ہمارے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں ہے۔ اگر حکمران طبقے کو عوام کے احتجاج اور سڑکوں پر آنے کا خوف ہو تو وہ معیشت کی بحالی کے نام پر بوجھ دیگر طبقوں کی طرف منتقل کریں۔ حکمران طبقات کی رعایتوں اور سہولتوں میں کٹوتی کریں۔ لیکن ایسا کچھ بھی کرنے کا ارادہ اور خواہش کہیں نہیں پائی جاتی۔ نگراں حکومت کے اختیارات میں قانون سازی کے ذریعے جس طرح اضافہ کیا گیا ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے جو اشارے آرہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نگراں حکومت کا دور طویل بھی ہوسکتا ہے جس میں عوام پر معاشی حملوں کا بھی طویل پروگرام ہے۔