توہین قرآن پر حکمران جہاد کریں گے؟

1542

دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں آئے دن قرآن کی توہین کا واقعہ ہورہا ہے، اسے آزادی اظہار کہا جارہا ہے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ آزادی اظہار کے بجائے کوئی اور معاملہ لگتا ہے۔ سویڈن، ڈنمارک اور اب ہالینڈ میں توہین قرآن ہر مرتبہ پولیس سیکورٹی میں واردات ہوتی ہے۔ روکنے والے ہی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ اس کے خلاف اسلامی ملکوں میں عوامی سطح پر تو احتجاج ہوا لیکن سرکاری سطح پر وہ نوٹس نہیں لیا جاسکا جو لیا جانا چاہیے تھا۔ چناں چہ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر توہین قرآن کا واقعہ پیش آگیا۔ پہلے بھی کئی مرتبہ ان سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ قرآن کا زمین پر گرانا، اس کے اوراق گرانا یا بعض کی رائے میں اس کی طرف پشت کرنا بھی غلط ہے لیکن قرآن کے احکامات پر مسلمانوں کا عمل کرنا تو فرض ہے اور مسلمان حکمران اس کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کررہے۔ یہ اس کے اوراق کو گرانے یا اس کی طرف پشت کرنے سے بڑی توہین ہے۔ اور قرآن کے احکامات سے روگردانی بھی سوچ سمجھ کر کی جارہی ہے، سب کے دلوں میں مغربی آقائوں کا خوف ہے۔ ان سانحات کے بار بار وقوع کے بعد پاکستان میں جڑانوالہ کا سانحہ پیش آگیا یہاں بھی ردعمل یا ردعمل میں اظہار رائے ہوا جو نہایت بے تکے انداز میں ہوا اور یہاں بھی اسے روکنے والے تماشائی بنے رہے۔ اس کا سبب کچھ بھی ہو انہوں نے رکاوٹ نہیں ڈالی، اس کے بعد جو کچھ ہوا اور کہا جارہا ہے وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ تک آزادیٔ اظہار کا معاملہ نہیں ہے اور اس کے بعد پاکستان میں اس کے ردعمل پر جو ردعمل ہورہا ہے وہ بھی ظاہر کررہا ہے کہ یہ ایک ہی لڑی ہے۔ پہلے تو چرچ جلائے گئے، عیسائیوں کے گھر نذر آتش کیے گئے جو ایک مسلمان کا طریقہ نہیں ہے۔ پھر قرآن کی بے حرمتی پر رسول مہربان کی توہین پر خاموش بیٹھی موم بتی مافیا اچانک پردے کے سامنے آئی اور عیسائیوں کو پاکستان میں تحفظ دینے کے مطالبات شروع ہوگئے۔ عورتوں کے حقوق کی وہ چیمپئن آزاد خیال خواتین بھی میدان میں آگئیں جن کا کسی مذہب سے تعلق نہیں بلکہ وہ تو مذہب بیزار ہیں لیکن وہ بھی کہہ رہی ہیں کہ عیسائیوں کو تحفظ دو۔ جڑانوالہ سانحے کے بعد سے جو ردعمل آرہا ہے اس کا رخ بتارہا ہے کہ ان لوگوں کو عیسائیوں اور چرچ یا قرآن سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ قرآن کو جلانا، توہین انبیا کرنا اور چرچ جلانا اور عیسائیوں پر حملہ کرنا اور اس کے ردعمل میں اسلام کو بدنام کرنا یہ سب ایک ہی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ قوم تو ترقی پسند مذہب بیزار خواتین تنظیموں کے ردعمل پر انگشت بہ دندان تھی کہ آئندہ چیف جسٹس جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فتویٰ دے دیا کہ گرجا گھروں پر کوئی حملہ کرے تو مسلمانوں پر جہاد کرنا فرض ہے۔ قاضی صاحب ایک ذمے دار منصب پر ہیں ان کی بات کی اہمیت ہے اور انداز۔ بہرحال مفتیوں والا ہے اسے فتویٰ ہی سمجھا جائے گا۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ اگر کوئی گرجا گھروں پر حمہ کرے تو مسلمان اس کے خلاف جہاد کریں۔ انہوں نے جڑانوالہ کے دورے کے موقع پر کہا کہ عہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ عام شہری کے طور پر دوسرے شہریوں کے پاس آیا ہوں۔ ان کا فرمان نہایت ہولناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر جہاد مسلمان خود ہی شروع کردیں تو ریاست کہاں ہے۔ اس کے نتائج افغانستان اور کشمیر میں سامنے آچکے ہیں۔ ریاست نے گرجا جلانے ہی کیوں دیے، ایک دو نہیں درجنوں گھر کیوں جلانے دیے اور اگر مفتی فائز یہ فتویٰ عام کررہے ہیں تو ان ہی سے سوال ہے کہ جناب پھر جب قرآن نذر آتش کیا جائے، اس کی توہین کی جائے اور اسے آزادی اظہار کا پھٹا پرانا بوسیدہ لباس پہنا دیا جائے تو پھر کون جہاد کرے گا۔ قرآن کی توہین پر بھی کوئی عمل حکمرانوں اور مسلمانوں پر فرض ہے یا محض مطالبات اور احتجاج تک بات رہے گی۔ عوام تو مطالبات اور احتجاج ہی کرسکتے ہیں لیکن اگر حکمران کوئی اقدام نہ کریں تو جڑانوالہ جیسے واقعات ہی ہوں گے۔ اس سے قبل بھی جب ریاست خاموش رہی تھی تو کراچی میں کئی سینما جلا دیے گئے تھے۔ ایسے واقعات کی تحقیقات تو نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو کوئی نتیجہ عوام کے سامنے نہیں آتا۔ یہ بہت ضروری ہے کہ پورے واقعے پولیس کے دعوئوں، مسجدوں سے اعلان کرنے والوں اور چرچ اور گھر جلانے والوں کے بارے میں تحقیقات کی جائے۔ ایک مرتبہ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوجائے تو ایسے کام ہونا ہی بند ہوجائیں۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ مسلمان ہی مجرم ہیں یا بار بار توہین قرآن کرنے والے تو بے چارے ہیں۔ اگر حکمران اقدام نہیں کریں گے، مغرب سے خوفزدہ رہیں گے تو کوئی بھی قانون ہاتھ میں لے سکتا ہے اور قانون حرکت میں آئے تو کوئی چرچ جلانے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے۔ ان خبروں کے درمیان بھارت میں مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف منظم حملے کی خبریں بھی شائع ہورہی ہیں اگر بھارت میں مسلمانوں، مسجدوں، چرچوں اور سکھوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں تو ان کے تحفظ کے لیے کون جہاد کرے گا۔ یہ رپورٹ کسی پاکستانی مذہبی تنظیم کی تو نہیں امریکی ادارے کی ہے کہ اب تک بھارت میں 50 ہزار مساجد اور 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کا نشانہ بن چکیں۔ ان کے لیے جہاد کا فتویٰ بھی درکار ہے۔ مسلمان قرآن کی بے حرمتی پر دل گرفتہ ہیں اگر حکمران ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے تو ایسے واقعات ہرگز نہیں ہوتے، مسلمان حکمرانوں کو اپنے منصب کا اور ذمے داری کا بھی لحاظ کرنا چاہیے۔ انہوں نے حکومت کے معاملات اور روزمرہ فیصلوں سے تو قرآن کو بے دخل کر رکھا ہے اب اسے جلانے پر بھی مضبوط ردعمل نہیں دیتے اس کا ذمے دار کون ہے؟