ہریانہ میں مسلم کش فسادات

558

پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا جس کو غاصب غیر ملکی برطانوی حکومت اور ملک کی اکثریتی ہندو قیادت سے منوانے کا کارنامہ قائداعظم محمد علی جناح نے انجام دیا اور تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا عمل انجام پایا۔ یہ سوال اول دن سے موجود تھا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کا کام کون انجام دے گا۔ اسی وقت یہ بات طے ہوگئی تھی کہ حکومت پاکستان کو منصفانہ نظام حکمرانی کے ساتھ اس فرض کو بھی انجام دینا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد کراچی تھیوسوفیکل ہال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ایگزیکٹو کونسل کے آخری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ کی ایگزیکٹو کونسل فیصلہ کرے تو وہ واپس انڈیا جا کر مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار ہیں، انہوں نے اس کا بھی اعلان کیا تھا کہ حکومت پاکستان بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے فوجی اقدام سمیت ہر قسم کے اقدام کا حق رکھتی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا تاریخی مکہ بھی اسی بات کی علامت ہے، لیکن قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد فوج نے ملک پر حکمرانی کا آغاز کردیا۔ آج ملک فلاحی ریاست کے بجائے سیکورٹی اسٹیٹ تو بن گیا لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت نہیں بن سکا۔ یہاں تک کہ بھارت کے سامنے فوجی ہتھیار ڈالنے کی ذلت کا داغ بھی اس امت کے سر پر لگ گیا۔ 75 برس گزر جانے کے بعد آج بھارت میں مسلمانوں پر آنے والے مصائب کسی بھی شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ 5 اگست کی تاریخ قریب آگئی ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کے مصائب کی انتہا کی علامت ہے، باقی بھارت میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔ بھارت نے اپنے چہرے سے سیکولر نقاب اتار دیا ہے۔ اس سلسلے کی تازہ لہر دارالحکومت دہلی کے متصل صوبہ ہریانہ میں مسلمانوں کے قتل و غارت کا نیا سلسلہ ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کی حفاظت حکومت پاکستان کا فرض ہے لیکن اب تو ایسے ہولناک واقعات ہونے کے باوجود رسمی بیان بازی کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جارہے ہیں۔ ان دعوئوں میں صداقت محسوس ہوتی ہے کہ 5 اگست 2019ء کے بعد ہمارے حکمرانوں سے بھارت کے مقابلے میں ’’سرنڈر‘‘ تسلیم کرلیا ہے۔