انتہا پسند یورپی حکمران بھی ہیں

503

سویڈن اور ڈنمارک میں ایک بار پھر ملعونوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے اور اس کے اوراق نذر آتش کردیے۔ سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں اور ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں سعودی سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔ سویڈن میں تو پولیس سے باقاعدہ اجازت ملی ہے وہ ایسا کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ کام کر گزرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سویڈن میں پارلیمنٹ کے باہر یہ واردات کی گئی ہے ان واقعات کے بارے میں تواتر سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ انتہا پسندوں کا کام ہے لیکن انتہا پسند کبھی کسی ملک میں کوئی واردات کردے تو اس ملک کی جمہوریت انسانی اقدار اور مساوات کے دعوے رکھنے والی حکومت اس قسم کے کاموں کو روکتی ہے لیکن کبھی عدالت اور کبھی پولیس اس قبیح فعل کی اجازت دیتی ہے اور اب تو پارلیمنٹ کے سامنے یہ سب کچھ ہوگیا لہٰذا صرف ایسا کرنے والوں ہی کو انتہا پسند نہیں کہا جاسکتا یہ سب پورے کے پورے انتہا پسند ہیں۔ جو لوگ اپنے مذہب کی بالادستی کے لیے دوسرے مذہب والوں کا قتل عام کرتے ہیں ان کو دھوکا دے کر مارتے ہیں آزادی اظہار کے نام پر اسلام قرآن اور نبی مہربان کی توہین کرتے ہیں اول درجے کے انتہا پسند ہیں جو حکومتیں فوری طور پر ایسے اقدامات کو نہیں روکتیں وہ انتہا پسند ہی کہلائیں گی۔ صرف اسرائیل اور بھارت کیوں انتہا پسند کہلاتے ہیں۔ دوسرے مذہب کا احترام نہ کرنے والی حکومتیں اور گروہ اپنے معاملے میں تو بڑے حساس ہوجاتے ہیں۔ یہودیوں کے پروپیگنڈے ہولوکاسٹ کو تو اپنا ایمان بنارکھا ہے اس بارے میں زبان کھولتے وقت آزادیٔ اظہار کے تمام حقوق ضبط ہوجاتے ہیں انہیں کوئی شخصی آزادی یاد نہیں رہتی مناصب سے معزول کردیتے ہیں۔ ملازمتوں سے نکال دیا جاتا ہے انسانوں کے گھڑے ہوئے قصے پر رائے زنی کو جرم قرار دیا گیا ہے اور آسمانی کتاب کی توہین کو آزادی اظہار کہتے ہیں۔ یہ محض تضاد یا شخصی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کھلم کھلا انتہا پسندی ہے۔ دوسری جانب مسلم ممالک میں مسلسل احتجاج پر کچھ حکومتوں اور او آئی سی کے تحت ردعمل کے نتیجے میں سویڈن اور ڈنمارک نے قرآن پاک کو جلانے جیسے واقعات کو روکنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے پر غور کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسا مبہم اور الجھا ہوا بیان ہے جس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہورہی ہے۔ ڈنمارک کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ایک قانونی راستہ تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ آزادی ٔ اظہار رائے کے وسیع پیمانے پر استعمال کو روکا جاسکے۔ وہ یہ وضاحت تو کبھی نہیں کریں گے کہ انہوں نے قبیح حرکت کو وسیع پیمانے پر اظہار رائے کیوں کیا۔ وہ اسے انفرادی عمل کہتے ہیں لیکن ان کے ملک کا آئین اجازت دے رہا ہے۔ پولیس اور عدالت سرپرستی کررہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ڈنمارک کا معاشرہ اعلیٰ اقدار پر قائم ہے جو ایسی حرکتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر یورپ میں ہولو کاسٹ پر زبان کھولنا جرم ہے تو آسمانی کتاب کو جلانا تو براہ راست سخت ترین سزا کا موجب ہے۔ یورپی حکمرانوں کے دوغلے پن کا تو بارہا تذکرہ ہوچکا لیکن اصل خرابی کی طرف بھی بار بار نشاندہی کی گئی ہے کہ اصل توہین قرآن، توہین اسلام اور توہین مذہب تو مسلمان ممالک کے حکمران کررہے ہیں۔ یہ بتایا جائے کہ یہ مسلم حکمران قرآن اور پیغمبر اسلام کے ہر حکم اور سنت کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں۔ بے حیائی کا پرچار کیوں کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی خوف نہیں کہ قرآن میں وعید سنادی گئی ہے کہ پیغمبر خود ہماری شکایت کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ تو پھر ایسے حکمران کس منہ سے قرآن کی بے حرمتی پر احتجاج کررہے ہیں۔ ڈنمارک اور سویڈن میں تو غیر مسلموں نے قرآن جلایا ہے لیکن ہمارے بدبخت حکمران قرآنی احکامات کا مذاق اڑاتے ہیں ان کے برخلاف قانون سازی کرتے ہیں اس سے تو امت مسلمہ کا خون جلاتے ہیں یہ جو ڈھیلا ڈھالا بیان یا عندیہ دیا گیا ہے یہ سب آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ آخر ہمارے مسلمان حکمرانوں کی غیرت کو کیا ہوگیا ہے کہ اتنے بڑے اقدام پر ان ممالک کے سفارتکاروں کو ملک سے نہیں نکالتے۔ اتنا نہیں تو اتنی جرأت تو کریں کہ اپنے سفیروں کو وہاں سے بلالیں۔ غلامی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔