نگراں سیٹ اپ کی طوالت کے منصوبے

602

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جنرل باجوہ سے ان بن کے بعد ختم کی گئی تو ایک نگراں سیٹ اپ کے طور پر بھان متی کے کنبے کو اقتدار پر لابٹھایا گیا۔ 13 جماعتی اتحاد عجیب الخلقت اور مختلف الخیال جماعتوں کا ملغوبہ ہے۔ اس کے سربراہ دینی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ اس کے کرتا دھرتا مسلم لیگ (ن) والے ہیں جن پر کرپشن، ملکی دولت لوٹنے اور معیشت کی تباہی کے الزامات ہیں۔ ان کے بڑے اتحادی پیپلز پارٹی والے ہیں جن پر ملک توڑنے سے لے کر ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت اور ہر سرکاری و غیر سرکاری منصوبے میں کمیشن کھانے کے الزامات ہیں۔ انہیں پی ٹی آئی کے اقتدار کے خاتمے پر لایا گیا تھا تا کہ اگلے الیکشن کا اہتمام کیا جاسکے لیکن پی ٹی آئی والے پاکستانی معیشت میں بارودی سرنگیں نصب کر گئے تھے اس کا اعلان خود عمران خان نے بار بار کیا یہ سرنگیں اب تک پھٹ رہی ہیں اور معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا۔ اب اس عبوری حکومت کی مدت بھی پوری ہورہی ہے اور کسی بھی دن اس کی اسمبلیوں کے خاتمے کے اعلان ہوجائے گا اس کے ساتھ ہی پھر نگراں حکومت بنے گی لیکن نگراں حکومت کے بارے میں جو باتیں سننے میں آرہی ہیں اور حکمرانوں کی اقتدار کی بھوک کے تناظر میں بیشتر درست لگتی ہیں کہ نگراں سیٹ اپ طویل عرصے کے لیے لایا جارہا ہے پہلے اسحق ڈار کا نام چلایا گیا اس پر ردعمل دیکھا گیا پھر خاموشی ہوئی اس کے بعد اچانک کہیں سے ڈوری ہلائی گئی اور اعتراض اختلاف وغیرہ کرنے والے سب ایک ہوگئے اور راتوں رات بلکہ ایک گھنٹے میں نگراں حکومت کے اختیارات انتخابی قوانین سمیت 29 بل منظور کرلیے گئے۔ ایک اور خبر ہے کہ انتخابات مارچ تک جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف جے یو آئی کے ایک رہنما حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ نگراں سیٹ اپ کے لیے ن لیگ سے بات چیت شروع ہوگئی ہے۔ گویا جو کچھ کرنا ہے ایک دوسرے کو دینا ہے یا کسی سے لینا ہے وہ آپس ہی میں کرتا ہے یعنی بندر بانٹ۔ اس بندربانٹ میں ایک غیر جانبدار نگراں حکومت کیسے آسکتی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب اپنے کاموں کو تحفظ اور تسلسل دینے کے لیے ایسے نگراں سیٹ اپ کی کوشش کریں گے جو انہیں معاملات اسی طرح لوٹا دے تو پھر اس سے حکمرانوں اور ان کو چلانے والوں کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب تو پی ٹی آئی کے دعوے کو تقویت ملے گی کہ یہ لوگ صرف اس کے خوف سے الیکشن سے دور بھاگ رہے ہیں۔ یہ خیال اپنی جگہ ہے کہ پی ٹی آئی خود بھی اسی طرح کے جوڑ توڑ سے اقتدار میں لائی گئی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم جو کچھ چاہتی ہے حکمراں اور مقتدر طبقات وہ نہیں ہونے دیتے۔ معاملہ صرف پی ٹی آئی کے حامیوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کا نہیں ہے۔ مینڈیٹ پر ڈاکے تو ابتدا سے ہی مارے جارہے ہیں۔ اس ملک کے عوام اسلامی نظام کے لیے نکلے اور انہوں نے قرار داد مقاصد منظور کرالی۔ لیکن قرار داد مقاصد کے پیچھے جو جماعت تھی اس کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ جماعت اسلامی نے انہیں مختلف سیاسی طریقوں ہی سے ناکام بنایا پھر قومی اتحاد بنا تو جماعت اسلامی اس میں شامل ہوئی اور ایک او ربڑی کامیابی حاصل کی قوم کی قوت سے یہ ثابت کیا کہ اس ملک کے عوام اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ اس وقت کا نعرہ نظام مصطفی تھا لیکن اسلام ہی کے نام پر پھر قوم کی اس خواہش کو دبایا گیا اور 11 سال بعد فوجی حکومت کے ایسی حکومت آگئی جو روشن خیالی کی دعویدار تھی۔ اور حال ہی میں کراچی کے میئر کے انتخاب کو تو سب نے دیکھ لیا۔ عوام عوام کی رٹ لگانے والوں نے 9 لاکھ والوں کو ہرادیا خود تین لاکھ دھاندلی والے ووٹوں سے میئر بن گئے۔ عوام کی خواہشات کو کیسے کچلا جاتا ہے اور نام عوام ہی کا لیا جاتا ہے اب یہی عوامی میئر عوام کے پانی کے کنکشن کاٹ رہے ہیں اگر کوئی سیٹ اپ قانون کے دائرے سے نکل کر مارچ یا اور آگے تک چلا جائے تو اس کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا جائے گا، اور یہ ہوگی بھی آئین کی خلاف ورزی، لیکن ہمارے ماہرین کے کیا کہنے کہ ملک میں تین باقاعدہ مارشل لا لگے ہیں لیکن ان کے غیر معینہ عرصے 90 دن کے 11 سال اور تین ماہ کے 8 سال سب کے سامنے ہیں ایک آواز بھی نہیں آئی۔ حالانکہ نگراں حکومت کی مدت تین ماہ سے زیادہ ہوجانے کے مقابلے میں غیر قانونی آئین شکن حکومت کا ایک دن بیھ آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جو کچھ مشورے ہورہے ہیں وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اس ملک کا مقتدر طبقہ اور حکمراں ملک، جمہوریت اور عوام کسی سے مخلص نہیں ہیں۔ یہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کو تباہ بھی کرسکتے ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے اس پر پوری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں صرف جماعت اسلامی کی آواز اٹھتی ہے۔ اس ایک ایک سینیٹر اور رکن قومی اسمبلی کی آواز کو بھی خاموش کرایا جاتا ہے۔