سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی، جو بویا وہی کاٹا

626

چند روز قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے بارے میں خبریں عام ہوئیں کہ وہاں طالبات کے ساتھ گھنائونا کھیل کھیلا گیا اور ان کی ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کیا گیا۔ ایک پہلو یہ ہے کہ طالبات نے خود ویڈیوز بنوائیں اور نمبر حاصل کیے۔ طالبات ایسا کیوں کرنے لگیں کیا اتنی بڑی تعداد میں طالبات کا اخلاقی معیار گر گیا ہے۔ اس پر مذمتی اور احتجاجی سلسلہ شروع ہوگیا ہے لیکن اگر یہ سب درست ہے ایسا ہی ہوا ہے تو کوئی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ ایسا کیوں ہوا۔ طلبہ و طالبات کے ایک تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے اور مخلوط ماحول کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔ مغربی نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں صرف بہاولپور یونیورسٹی کی انتظامیہ سیکورٹی افسر یا وائس چانسلر کو الزام دینا اور سزا دینا درست نہیں جب کہ یہ سارا کام پوری قوم نے کیا ہے۔ ہم مغربی مخلوط نظام اور بے سروپا نصاب کو پسند کرتے ہیں۔ مغرب سے قرضے لیتے ہیں اس کے جمہوری نظام پر فدا ہوتے ہیں، سب کچھ اس کا ہے تو نتائج بھی اسی کے ہوں گے۔ اس معاملے میں عدالت کو کام کرنے دیا جائے۔ اگر جرم ہوا ہے تو سزا دی جائے لیکن قوم کے چاچے مامے ذرا سوچیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کہاں لے جارہے ہیں۔ پاکستان مخلوط تعلیم کے لیے بنا تھا یا اسلام کے نفاذ کے لیے۔ اب بھی وقت ہے سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی نے سوچنے کا موقع دیا ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں۔ بیٹیوں والے یہی اسلامی انداز کا پاس رکھنے والے ہیں حکمران طبقے کے صرف 17 افراد کے اربوں ڈالر بیرون ملک پڑے ہیں ان پیسوں کو لاکر خواتین کے اچھے تعلیمی ادارے بنائیں۔ مغرب کے پیچھے بھاگنا چھوڑدیں وہ تو خود اپنے خنجر سے خودکشی کرچکا اب ہم اس کے استعمال شدہ زنگ آلود کند خنجر اپنی قوم پر آزمارہے ہیں۔