قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں

1617

آج عاشورہ محرم ہے، محرم الحرام ہجری یا قمری سال کا پہلا مہینہ ہے جس کی دس تاریخ کو اسلامی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، ہر سال دنیا بھر کے مسلمان اس روز حضرت امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے دکھ اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور دین کی خاطر ان کی عظیم قربانی پر انہیں اپنے اپنے انداز میں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں مگر تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ امت نے اس مقصد کو فراموش کر دیا ہے جس کی خاطر رسول رحمت، حضرت محمدؐ کے نواسے حضرت حسینؓ نے نہ صرف اپنی جان کی قربانی دی بلکہ اپنے خاندان کے بچوں تک کی جانیں قربان کرنے سے گریز نہیں کیا، امت مسلمہ کی عظیم اکثریت ’یوم عاشور‘ پر امام عالی مقام اور ان کے خاندان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مقصد کے بارے میں سوچنے تک کی زحمت گوارہ نہیں کرتی جس کے پیش نظر خاندان رسالت مآب نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا… محسن انسانیت ؐ اور ان کے خلفائے راشدین نے دنیا کے سامنے جس نظام کا نقشہ اور عملی نمونہ پیش کیا اسے چند الفاظ میں سمویا جائے تو یہ ’ رب کی زمین پر رب کا نظام‘ تھا جس کے اساسی اصول یہ تھے کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی تخلیق و ملکیت ہے اور یہاں بسنے والے انسان اسی رب العالمین کی رعایا ہیں، دنیا میں جسے اختیار و اقتدار سونپا جاتا ہے وہ اس امر کا پابند ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون اس رعایا پر نافذ کرے، اسلامی ریاست کا سربراہ فی الواقع اس رعایا پر حکمران یا بادشاہ نہیں نہ یہ رعایا اس کی غلام ہے بلکہ اس سربراہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عطا شدہ ریاستی وسائل کو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں مخلوق خدا میں عدل و انصاف سے تقسیم کا اہتمام کرے، اس کام میں خوف خدا ہمیشہ اس کے پیش نظر رہے، خدا اور اس کی مخلوق کے سامنے جواب دہی کا احساس بھی کسی وقت ذہن سے محو نہیں ہونا چاہئے، معاملات ریاست و حکومت چلاتے وقت ایک مسلمان حاکم کے لیے مشاورت بھی لازم ہے اور وہ بھی ان سے، جن کے تقویٰ، علم دین اور اصابت رائے پر عوام کو اعتماد ہو، اس ریاست میں عام آدمی کا آزادانہ سوچنے اور بولنے کا حق بھی مسلمہ تھا، حاکم وقت سے سوال، جواب کی مکمل آزادی سب کو حاصل تھی، اسلامی ریاست کا خزانہ، بیت المال بھی صاحب اختیار و اقتدار کی ملکیت نہیں بلکہ اس کے پاس خالق اور مخلوق کی طرف سے امانت تھی جس کی ایک ایک پائی کے استعمال سے متعلق وہ جواب دہ تھا، ریاست کے تمام شہری، قانون کی نظر میں کسی اونچ نیچ کے بغیر مساوی حیثیت رکھتے تھے، رنگ و نسل، قبیلے یا خاندان، علاقے یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا، اسلامی ریاست کے یہی وہ نمایاں اصول و ضوابط تھے، جن کی بنیاد پر عدل و انصاف کا بول بالا تھا اور رعایا مطمئن تھی، جس کے ہر فرد کو یہ حق حاصل تھا اور اس کا عملاً بارہا مظاہرہ ہوا کہ معاشرے کے معمولی آدمی نے سر مجلس اپنے حکمران کی جواب طلبی کی اور حاکم وقت نے کسی رنجش کو دل میں جگہ دیئے بغیر سوال کرنے والے کو اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھ کر مطمئن کیا…!!!
امام حسینؓ اور یزید کے مابین معرکہ آرائی اور کشمکش کا بنیادی سبب یہی تھا کہ یزید نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسلامی ریاست کے ان بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا تھا، نظام حکومت کا قبلہ، خلافت کی بجائے بادشاہت کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔ ورنہ اس دور میں نہ تو لوگوں نے اپنا دین تبدیل کر لیا تھا، سب مسلمان ہونے ہی کے دعویدار تھے، نہ نماز روزے اور حج عمرہ جیسی عبادات پر کوئی پابندی عائد کی گئی تھی، اس کے باوجود امام حسینؓ نے یزید سے بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور اس انکار کی قیمت اپنے پورے خاندان کی قربانی کی صورت میں ادا کرنے پر آمادہ ہو گئے، کیا انہیں یزید سے کوئی ذاتی بغض و عناد تھا یا پھر دنیاوی جاہ و جلال اور اقتدار کے حصول کی خواہش اس کی وجہ تھی؟ ایسی کوئی بھی صورت پیش نہیں آئی تھی تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یزید کا کردار ایک خلیفۃ المسلمین کے شایان شان نہیں تھا اور نہ ہی اپنے پیش رو خلفائے اسلام کے کردار سے مطابقت رکھتا تھا، تاہم امام حسینؓ کے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ اسلامی ریاست کی روح، اس کے مزاج اور اس کے نظام خلافت میں تبدیلی کا آغاز تھی۔ یزید کی تخت نشینی سے جس طرز حکمرانی کا آغاز ہوا اس میں تقویٰ کے بجائے عیش پسندی اور خلافت کے بجائے انسانی بادشاہت کا رنگ نمایاں تھا، نہ صرف یہ بلکہ اسلامی ریاست کی سب سے بڑی ذمہ داری امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کر دیا گیا تھا… نواسۂ رسولؐ نے اپنی جان کا نذرانہ اس لیے پیش کیا کہ انہوں نے یہ دیکھا کہ اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی کی جا رہی ہے جن میں خلیفہ المسلمین کا آزادانہ انتخاب، اظہار رائے کی آزادی، شورائی نظام، خدا اور خلق کے سامنے جوابدہی، بیت المال کو امانت سمجھنا، قانون کی حکمرانی اور قانون کے لحاظ سے شہریوں میں مساوات کے اصول شامل تھے۔ امام عالی مقامؓ کی یہ عظیم قربانی ہمیں ہر سال یہ یاد دلاتی ہے کہ جب زمین پر اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کا حکم چل رہا ہو اور خالق کے بجائے مخلوق کی مرضی مسلط ہو چکی ہو تو ایک سچے مسلمان کو اپنے رب کی رضا کی خاطر اور اسلامی نظام کے نفاذ اور غلبے کے لیے اپنی جان، مال اور وقت سمیت تمام صلاحیتوں کو کھپا دینا چاہئے… موجودہ دور میں دین اور دنیا کو الگ الگ پیمانوں سے جانچنے والے لوگوں کے نزدیک شاید یہ خالصتاً سیاسی کام ہے جس سے ایک دین دار شخص کو دور ہی رہنا چاہئے مگر امام حسینؓ کا اسوۂ تو ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ نظام مملکت کو غلط جانب جاتے دیکھ کر اس کی اصلاح کی خاطر جان و مال حتیٰ کہ پورا خاندان قربان کروا دینا عین اسلامی اور دینی کام ہے، اسی لیے تو آج پوری امت مسلمہ امام حسینؓ کی قربانی کو شہادت عظمیٰ قرار دیتی اور عقیدت و احترام سے ہر سال اس کی یاد مناتی ہے۔ مگر اسے ہمارے قول و فعل اور گفتار و کردار کے تضاد کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ ہم رسول اکرمؐ کے عشق کے دعوے زبان سے کرتے نہیں تھکتے اور نواسۂ رسول امام حسینؓ کی عقیدت میں بھی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں مگر ان کے مبارک اسوہ کے مطالعہ پر تیار ہیں اور نہ اس کی پیروی پر آمادہ، حالانکہ قرآن حکیم کا یہ واضح اور دو ٹوک حکم ہے کہ رسول کریم حضرت محمد مصطفی ؐ کا اسوہ مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے جس کی پیروی سب پر لازم ہے مگر ہم صبح شام عشق کے دعوئوں کے باوجود اس حکم قرآنی پر عمل پر تیار نہیںبات بہت واضح ہے کہ:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اسلام اور مسلمان آج جن حالات سے دو چار ہیں، وہ امام حسینؓ کے دور سے بہت زیادہ مختلف نہیں، دینی اصولوں کو کھلے بندوں پامال کیا جا رہا ہے، اسلامی اقدار و روایات کی توہین معمول بن چکی ہے، مسلمان ممالک میں سود، شراب، جوا، فحاشی، عریانی، بے حیائی اور بد چلنی عام ہیں، جھوٹ کا دور دورہ ہے، سچ منہ چھپاتا پھر رہا ہے، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز عوام کو دستیاب نہیں… ہمارے حکمران مسلمان کہلاتے ہیں مگر ان کا کردار ایسا ہے کہ جسے دیکھ کے شرمائیں یہود۔ ایسے میں عاشورہ محرم کا پیغام تو یہی ہے کہ:
سر تیرا کٹ کے جا لگے، نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی تو بیعت نہ کر قبول
ہم ہر سال امام حسینؓ کی شہادت کی یاد تو بڑے اہتمام سے مناتے ہیں مگر ان کا پیغام ہمیں یاد نہیں۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے بقول حقیقت یہی ہے کہ آج ع قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں… ورنہ امت اس زبوں حالی اور زوال سے دو چار نہ ہوتی…!!!