پاکستان میں فاقہ کشی۔ عالمی ادارے کی رپورٹ

683

دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے لیے قائم عالمی ادارے کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی سلامتی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اور قدرتی آفات اور سیاسی و معاشی بحران کے باعث 121 ممالک میں 99 نمبر پر آگیا ہے۔ بھوک کی درجہ بندی کے اعتبار سے صورتِ حال کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ عالمی امدادی اداروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اسے عام آگاہی کے لیے جاری کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں عالمی غذائی پروگرام (WFP) اور فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن (FAO) کی مشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ کے ذریعے خوفناک صورت حال سامنے آئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں 80 لاکھ سے زائد افراد کو ’’انتہائی شدید غذائی عدم تحفظ‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لاکھوں افراد غذائی کمی کا شکار ہیں اور اس میں اضافہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ عالمی رپورٹ میں جنوبی ایشیا یعنی براعظم دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں خوراک اور غذا کی کمی سب سے بلند سطح پر ہے۔ غذائی قلت یا بھوک کی وجہ سے 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں سندھ، بلوچستان اور فاٹا کے علاقے غذائی قلت کے سب سے زیادہ شکار ہیں۔ غذائی قلت کے بحران کے اسباب میں کورونا کی قدرتی وبا، پاکستان کے مختلف علاقوں میں سیلاب کی تباہی کا تسلسل، داخلی اور بیرونی جنگوں کی وجہ سے اندرونی مہاجرت، جس میں پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن بھی شامل ہیں۔ بالخصوص امریکی وار آن ٹیرر کے تحت خیبر پختون خوا اور فاٹا میں کیے جانے والے آپریشن نے داخلی مہاجریت پر لاکھوں پاکستانیوں کو مجبور کردیا۔ ایک سبب تو قدرتی اور انسانی ساختہ آفات ہیں لیکن ظالمانہ سیاسی اور اقتصادی نظام ایک بااثر طبقہ اشرافیہ کی طاقت نے ایسا بحران پیدا کردیا ہے جس نے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کردیا ہے کہ لاکھوں افراد غذائی قلت اور بھوک برداشت کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ قدرتی اور انسانی ساختہ آفتوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا پر حکومت کرنے والے ممالک اور اداروں نے جس مہنگائی اور افلاس کو ایشیا اور افریقا کے ان ممالک پر مسلط کیا ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا۔ اگر ہم صرف پاکستان کے گزشتہ 20 برس کا جائزہ لیں تو صرف آٹے کی قیمت 20 روپے کلو سے 150 روپے کلو پہنچ گئی ہے۔ یہ صورت حال اس ملک میں ہے جواجناس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ انہی 20 برسوں میں ایک سال ایسا بھی آیا تھا کہ جس میں ایک عالمی ادارے نے رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق گندم کی پیداوار اس لیے اضافی ہوگئی تھی کہ قیمت بڑھنے کی وجہ سے لوگوں نے کم مقدار میں آٹا خریدا تھا، آٹا مہنگا ہوجانے کی وجہ سے اس کا استعمال کم ہوگیا تھا اور گندم کی قلت کے بجائے ذخائر بڑھ گئے تھے۔ جس وقت قائداعظم کی سربراہی میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے لیے برطانوی حکومت سے مسلم لیگ کے مذاکرات جاری تھے، اسی زمانے میں برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں نئی مملکت کے مستقبل کے مسائل کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق قابل اطمینان بات یہ تھی کہ پاکستان غذائی قلت کا شکار نہیں ہوگا، اس لیے پاکستان میں بھوک کی صورت حال سنگین ہونے کی وجہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ استحصالی معاشی پالیسیاں ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی وجہ سے صرف کرنسی کی بے قدری اور ڈالر کی شرح میں اضافے نے مہنگائی میں اضافہ کردیا ہے۔ روپے کی شرح میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اقتصادی بحران سے پاکستان لاکھوں انسانوں کو فاقہ کشی کی مصیبت میں مبتلا کردیا ہے، جس کی تصدیق عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی کررہی ہیں۔