خیبر پختون خوا کی سیاسی تاریخ

615

خیبر پختون خوا کی سیاست کا درجہ حرارت اور یہاں کا سیاسی کلچر چونکہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت ہمیشہ سے کافی غیر متوازن اور متلون واقع ہوا ہے اس لیے یہاں کی سیاست کے مستقبل اور خاص کر یہاں کے ووٹرز کے مزاج کے بارے میں کبھی بھی کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں کبھی بھی کسی بھی جماعت کو تن تنہا کوئی بڑی سیاسی پزیرائی نصیب نہیں ہوئی ہے بلکہ اگر یہاں کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح ہوتی کہ یہاں ہر انتخاب کے نتیجے میں منتشر اور ملا جلا مینڈیٹ سامنے آتا رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں پنجاب اور سندھ کے برعکس کبھی بھی کسی ایک سیاسی جماعت یا خاندان کی سیاسی اجارہ داری نہیں رہی۔

خیبر پختون خوا میں باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں خاص کر انتخابی سیاست کا دور برصغیر پاک و ہند کے دیگر صوبوں کے بہت بعد میں شروع ہوا تھا حالانکہ موجودہ خیبر پختون خوا کو صوبے کا درجہ برطانوی دور حکومت میں بیسویں صدی کے اوائل یعنی 1901ء ہی میں دے دیا گیا تھا لیکن 1932ء تک اس کی یہ حیثیت برائے نام صوبے کی تھی اور اسے چیف کمشنر کا صوبہ کہا جاتا تھا جو چھے اضلاع ایبٹ آباد، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور اور مردان پر مشتمل تھا البتہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت جب 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں انتخابات کروائے گئے تو ان گیارہ صوبوں میں خیبر پختون خوا جسے اس زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا بھی شامل تھا۔

یہاں یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ اس صوبے نے قیام پاکستان تک ہونے والے 1937ء اور 1946ء کے دونوں انتخابات میں یہاں مسلمانوں کو واضح اکثریت کے باوجود مسلم لیگ کے برعکس کانگریس کو کامیابی سے ہمکنار کرکے خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبد الغفار خان (باچا خان) کے بھائی خان عبد الجبار خان المعروف ڈاکٹر خان کی وزارت اعلیٰ کی راہ ہموار کی تھی حالانکہ نہ تو کانگریس کے نہرو رپورٹ 1928 میں اس صوبے میں سیاسی اصلاحات کی بات کی گئی تھی اور نہ ہی کبھی کانگریس کے ہندو نواز راہنمائوں نے کبھی اس صوبے کو دیگر ہندو اکثریتی صوبوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت دیناگوارہ کی تھی جس کا اندازہ کانگریس کے راہنمائوں مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہروکا اپنے سارے سیاسی کیرئیر میں یہاں کا محض ایک ایک مرتبہ دورہ کرنے سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی میں یہاں کا نہ صرف تین مرتبہ دورہ کیا بلکہ ان کے تاریخی چودہ نکات 1929 میں بھی ایک اہم نکتہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں سیاسی اصلاحات کے مطالبے سے متعلق تھا۔

اسی طرح جب قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے اثاثے مسلمانوں کے تین تاریخی تعلیمی اداروں کے نام وقف کرنے کا اعلان کیا تو ان میں ایم اے او کالج علی گڑھ اور سندھ مدرستہ الاسلام کراچی کے علاوہ ایک ادارے اسلامیہ کالج پشاور کا تعلق بھی خیبر پختون خوا سے تھا۔ خیبر پختون خوا کی اسی انفرادیت نے انگریزوں کو قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں شامل ہونے والے دیگر صوبوں کے برعکس یہاں ریفرنڈم کروانے پر مجبور کیا جس کی وجہ ڈیڑھ سال پہلے ہونے والے 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کے قیام پاکستان کے مطالبے کے باوجود خیبر پختون خوا سے کانگریسکا کامیاب ہونا تھا جس پر انگریزوں کو یہاں فریش مینڈیٹ کے تحت اس صوبے کے مستقبل کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے کروانا پڑا۔

1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور موجودہ چار صوبوں کو بحال کرکے 1973ء کے آئین کے تحت خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلی قائم کی گئی تو مرکز، پنجاب اور سندھ کے برعکس یہاں پیپلز پارٹی کے بجائے جمعیت العلماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے مولانا مفتی محمود کی سربراہی میں مخلوط حکومت تشکیل دی تھی جس کو بعد ازاں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تحلیل کرکے یہاں گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔ 1988ء، 1990ء اور 1996ء کے استثناء کے بعد خیبر پختون خوا میں بالترتیب وفاق میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کا موقع ملا تھا البتہ 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے نتائج مرکزی انتخابات کے برعکس آئے تا آنکہ 2018ء میں پی ٹی آئی کو مرکز کے ساتھ ساتھ یہاں سے بھی کامیابی نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو مرکز سمیت خیبر پختون خوا میں بھی دوبارہ حکومت سازی کا موقع ملاحالانکہ ماضی میں یہاں کے نتائج اکثر مرکز کے نتائج کے برعکس ہی آتے رہے ہیں جس سے اس صو بے کی منفرد اور دلچسپ سیاسی تاریخ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔