چند سبق آموز احادیث وروایات (حصہ سوم)

991

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اُس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں ( نیکیوں کا کوئی) لین دین نہیں ہوگا اور (کافروں کے لیے) کوئی دوستی کام آئے گی اور نہ کوئی سفارش‘‘، (البقرہ: 254) نیز فرمایا: ’’اے ایمان والو! جو (مال) ہم نے تمہیں عطا کیا ہے، اُس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت سرپر آجائے اور پھر کہے: اے میرے پروردگار! تونے مجھے تھوڑی سی فرصت ِ حیات کیوں نہ دی کہ میں خوب صدقہ کرتا اور نکوکاروں میں سے ہوجاتا اور جب کسی شخص (کی موت) کا مقررہ وقت آجائے تو اللہ تعالیٰ اُس میں (لمحہ بھرکی) تاخیر بھی نہیں فرماتا اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ (المنافقون: 10-11)

امام رازی لکھتے ہیں: ’’مال کو مال اس لیے کہتے ہیں کہ ہر ایک کا اُس کی طرف میلان (جھکائو) ہوتا ہے، مال آنے جانے والی چیز ہے، یہ جلد ختم بھی ہوجاتا ہے اور مالک سے جدا ہوجاتا ہے، سو جب تک مال کسی کے پاس موجود ہے، اس کی ہلاکت اور جدائی کا خطرہ لاحق رہتا ہے، لیکن جب انسان اُس مال کو نیکی، خیر اور فلاح کے کاموں میں خرچ کرلیتا ہے تو اُسے بقا مل جاتی ہے اور پھر زوال کا خطرہ نہیں رہتا، پھر وہ دنیا میں دائمی مدح اور آخرت میں دائمی ثواب کا سبب بنتا ہے، میں نے سنا: ایک صاحب کہہ رہے تھے: ’’انسان اپنے مال کو قبر میں نہیں لے جاسکتا‘‘، میں نے انہیں کہا: ایسا کرنا ممکن ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ جب وہ اپنے مال کو اللہ کی رضا میں خرچ کرے گا تو وہ (اجر کی صورت میں) اُسے قبر میں بھی اور قیامت کے دن بھی ملے گا‘‘۔ (تفسیر کبیر)

’’سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہو تو اسے چاہیے کہ (اسی دنیا میں) اس سے معاف کرالے (یا تلافی کرلے)، قبل اس کے کہ اس کے بھائی کا بدلہ چکانے کے لیے اس کی نیکیوں سے کچھ لیا جائے اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے (مظلوم) بھائی کے گناہ اس کے اوپر ڈال دیے جائیں گے، کیونکہ پھر وہاں درہم ودینار نہیں ہوں گے (کہ کچھ لے دے کر جان چھڑالی جائے)‘‘۔ (بخاری)

ابو مُطَرِّف عبداللہ بیان کرتے ہیں: میں نبیؐ کے پاس آیا، آپ اُس وقت سورۃ التکاثر کی تلاوت فرما رہے تھے، آپؐ نے فرمایا: ابن آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، آپؐ نے فرمایا: ابن آدم! تمہارے مال میں سے تمہارا حصہ کیا ہے، بس جو تم نے کھالیا اور فنا ہوگیا اور جو تم نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو تم نے (اللہ کی راہ میں) صدقہ دیا اور آخرت کے لیے رکھ چھوڑا‘‘، (مسلم) سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال، اُس کے مال میں سے اُس کا حصہ صرف تین چیزیں ہیں: جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا یا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو اُس نے (اللہ کی راہ میں) دے دیا اور وہ ذخیرۂ آخرت بن گیا، اس کے سوا جو کچھ ہے (وہ اُس کا نہیں ہے)، وہ تو (آخرت کے سفر پر) جانے والا ہے اور بقیہ سارا مال وارثوں کے لیے چھوڑ جائے گا‘‘۔ (مسلم) الغرض اُس کے چھوڑے ہوئے مال پر عیش وعشرت اُس کے وارث کریں گے اور قبر اور آخرت میں حساب اُسے دینا ہوگا، حدیث پاک میں ہے:

’’نبیؐ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال محبوب ہے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم میں سے ایسا کوئی بھی نہیں ہے جسے دوسروں کے مال کے مقابلے میں اپنا مال زیادہ محبوب نہ ہو، آپؐ نے فرمایا: درحقیقت اُس کا مال وہی ہے جو اُس نے (آخرت کے لیے) آگے بھیجا اور جو وہ پیچھے چھوڑ گیا، وہ اُس کے وارثوں کا مال ہے‘‘۔ (بخاری) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمایا ہے: ’’(وہاں جاکر) وہ جان لے گا کہ اُس نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑا‘‘، (الانفطار: 5) نیز فرمایا: ’’اور اُسے سوچنا چاہیے کہ وہ کل کے لیے کیا (ذخیرۂ اعمال) آگے بھیج رہا ہے‘‘۔ (الحشر: 18)

’’رسول اللہؐ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مال اور صورت میں اپنے مقابلے میں کسی افضل کو دیکھے، تو اُسے چاہیے کہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے‘‘، (بخاری) کیونکہ اپنے سے برتر کو دیکھنے سے احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے اور اپنے سے کم تر کو دیکھنے سے انسان کا دل ودماغ اللہ تعالیٰ کے حضور تشکر کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے۔ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے‘‘۔ (مسلم) ظاہری صورت میں تو انسان ریا کاری سے کام لے سکتا ہے، پارسائی کا روپ دھار سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو دلوں کا حال جانتا ہے کہ اس ظاہری پارسائی کے پیچھے کون سا جذبہ اور کیسی نیت کارفرما ہے، حدیث پاک میں ہے:

’’رسول اللہؐ نے فرمایا: مومن کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اُس کی نیت سے بہتر ہے اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے اور جب مومن اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے تو اُس کے دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نیت میں دکھاوے کا احتمال نہیں ہوتا، جبکہ عمل میں ریاکاری کا احتمال ہوسکتا ہے، چنانچہ حدیث پاک میں فرمایا: ’’اعمال پر (جزا وسزا کا) مدار نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اُس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا‘‘۔ (بخاری) لہٰذا اپنے جیسے انسانوں کو تو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ تو دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اُسے دھوکا نہیں دیا جاسکتا، اس لیے منافقوں کے بارے میں فرمایا: ’’وہ (اپنی دانست میں) اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ خود فریبی میں مبتلاہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 9)

نبیؐ نے فرمایا: ’’تم (بعینہٖ) ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی اس میں داخل ہوگے، صحابہ عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپؐ نے فرمایا: اور کون‘‘۔ (بخاری) عربی زبان کا محاورہ ہے: فُلانٌ اَحْیَرُ مِنَ الضَّبِّیعنی فلاں شخص گوہ سے بھی زیادہ حیرت میں ڈالنے والا ہے‘‘۔ اہلِ عرب کے ہاں یہ مشہور تھا کہ گوہ کے داخل ہونے والے سوراخ کا تو پتا چل جاتا ہے، لیکن نکلنے والے سوراخ کا پتا نہیں چلتا، لہٰذا اسے حیرت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

عبداللہ بن عیزار بیان کرتے ہیں: ’’میں ریگستان میں ایک بزرگ سے ملا، میں نے اُن سے کہا: آپ کسی صحابیِ رسول سے ملے ہیں، انہوں نے کہا: ہاں! عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ملا ہوں، میں نے اُن سے پوچھا: آپ نے اُن سے کیا سنا، انہوں نے کہا: میں نے سنا: وہ کہہ رہے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس انہماک سے جمع کرو کہ گویا تم کو ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس قدر حضوریِ قلب سے عمل کرو، گویا تم کو کل مر جانا ہے (اور یہ تمہارا آخری نیک عمل ہے)‘‘۔ (مسند الحارث) اس کا مطلب یہ ہے: دنیا ہو یا آخرت، ہر کام مکمل یکسوئی اور حضوریِ قلب کے ساتھ کرنا چاہیے، یعنی چل چلائو اور ڈنگ ٹپائو والا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔

’’سیدنا معاذ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے مجھے دس باتوں کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو خواہ تجھے قتل کردیا جائے یا جلادیا جائے اور اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو خواہ وہ تجھے اپنے گھر اور مال سے بے دخل کردیں اور فرض نماز کو (بلاعذر) نہ چھوڑنا، کیونکہ جو فرض نماز کو چھوڑے گا تو اُس سے اللہ کا ذمہ اٹھ جائے گا، شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر بے حیائی کی جڑ ہے۔

معصیت سے بچے رہنا کیونکہ معصیت اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، دشمن سے مقابلے کے وقت پیٹھ نہ دکھانا خواہ لوگ ہلاک ہوجائیں، جب لوگوں پر موت عام ہو (یعنی وبا پھیل جائے) اور تم وہاں موجود ہو تو ثابت قدم رہو، اپنی گنجائش کے مطابق اپنے اہل وعیال پر خرچ کرو، ہمیشہ اُن کو ادب سکھائو اور اللہ کا خوف دلاتے رہو‘‘۔ (مسند امام احمد)

’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ کی ’’عَضْبَاء‘‘ نامی ایک اونٹنی تھی، وہ (ہمیشہ دوسری اونٹنیوں پر) سبقت لے جاتی تھی، پس ایک اعرابی اپنے اونٹ پر (سوار ہوکر) آیا اور وہ اس اونٹنی سے آگے نکل گیا، مسلمانوں کو اس سے بہت رنج ہوا، انہوں نے کہا: ’’عَضْبَاء‘‘ پیچھے رہ گئی، رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے کہ جو چیز بھی دنیا میں سربلند ہوتی ہے، (ایک وقت آتا ہے کہ) پھر اُسے پست فرما دیتا ہے‘‘۔ (بخاری) یعنی ازلی، ابدی اور دائمی کمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہے کہ جس پر کبھی بھی زوال نہیں ہے، دنیا کے لیے سنتِ الٰہی یہی ہے: ’’ہر کمال کو زَوال ہے‘‘، لہٰذا کسی کو عروج ملے تو نَخوت وغرور میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ عَجز وانکسار کا پیکربن کر رہنا چاہیے، بندگی کی یہی ادا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، حدیث پاک میں ہے: ’’جو اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے، اللہ اُسے ایک درجہ بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اللہ پر ایک درجہ تکبر کرتا ہے، اللہ اُسے ایک درجہ گرادیتا ہے حتیٰ کہ پست ترین طبقے میں پہنچ جاتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)

سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: میت کے ساتھ تین چیزیں قبر تک جاتی ہیں (اس کے رشتے دار، اس کا مال اور اس کا عمل)، پس دو (رشتے دار اور مال) قبر کے کنارے سے لوٹ آتے ہیں اور (قبر میں اُس کے ساتھ) صرف اُس کا عمل رہ جاتا ہے‘‘۔ (بخاری) لیکن مقامِ حیرت ہے کہ دنیا میں انسان اُن چیزوں سے لگائو رکھتا ہے جو قبر کے کنارے ساتھ چھوڑ دیتی ہیں اور اُن چیزوں سے لاتعلق رہتا ہے جو قبر میں کام آتی ہیں۔