مسلم دنیا اور اس کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا تجربہ

1244

ہر ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس ملک کا حصار ہوتی ہے۔ امریکا کی فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکا کا حصار ہے۔ چین کی فوجی اسٹیبلشمنٹ چین کا حصار ہے۔ ہندوستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہندوستان کا حصار ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلم دنیا کے کئی ملکوں کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ان ملکوں کا حصار نہیں ان کا محاصرہ ہے۔ ان کا نظریاتی محاصرہ، ان کا سیاسی محاصرہ، ان کا تہذیبی محاصرہ، ان کا تاریخی محاصرہ، ان کا معاشی محاصرہ، ان کا سماجی محاصرہ، ان کا نفسیاتی محاصرہ۔
کمال اتا ترک ترکی کی جنگ آزادی کا ہیرو تھا۔ اسی لیے اسے ’’اتاترک‘‘ یعنی ’’ترکوں کا باپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اتا ترک ترکوں کا سیاسی باپ تھا۔ وہ معاذ اللہ ترکوں کا خدا نہیں تھا۔ مگر وہ فوج کی طاقت کی بنیاد پر ترکوں کا خدا بن بیٹھا۔ اس نے قرآن کی تعلیم و تدریس پر پابندی لگادی، اس کے دبائو پر عربی میں اذان متروک ہوگئی۔ اس نے مدارس پر تالے ڈالوادیے۔ ڈاڑھی اور پردے پر پابندی لگادی۔ اس نے صوفیوں کی خانقاہیں بند کرادیں، ترکی زبان کا عربی اسم الخط ترک کرایا گیا اور اسے رومن میں لکھا جانے لگا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ترکی ’’کمال ازم‘‘ کے اثر سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔ عدنان میندریس ترکی کے مقبول عوام سیاسی رہنما تھے مگر ان کا جھکائو مذہب کی طرف تھا۔ چناں چہ ترک فوج نے ان کے خلاف بغاوت کردی اور عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ نجم الدین اربکان ایک کلین شیو مسلم رہنما تھے۔ ان کے دامن پر نہ بدعنوانی کا داغ تھا، نہ وہ ملک و قوم کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے تھے۔ مگر وہ بہرحال ’’اسلام پسند‘‘ تھے۔ چناں چہ ترکی کی فوج نے ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔ رجب طیب اردوان نجم الدین اربکان کے شاگرد تھے مگر ان کی اربکان سے زیادہ نہ نبھ سکی۔ چناں چہ وہ ان سے الگ ہوگئے اور انہوں نے اپنی جماعت تشکیل دے دی۔ طیب اردوان نجم الدین اربکان کی طرح ’’انقلابی‘‘ نہیں تھے۔ انہوں نے ترکی کے سیکولر آئین کو تسلیم کیا ہوا تھا۔ انہیں ترکی میں جسم فروشی کے اڈوں، جوئے خانوں اور شراب خانوں پر اعتراض نہیں تھا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بھی خلاف نہ تھے۔ مگر وہ بہرحال تھے اسلام پسند۔ انہوں نے ایک سیاسی جلسے میں مسجد پر ایک خوبصورت نظم پڑھی تھی اور اس کی سزا بھگتی تھی۔ ان کے اسلام کو
مغرب اور ترکی کی سیکولر فوج Creeping Islam یا رینگتا ہوا اسلام سمجھتی تھی۔ یعنی ایسا اسلام جو آہستہ رو تو ہے مگر وہ آہستگی کے ساتھ سہی مسلسل آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ چناں چہ ترکی کی فوج نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ طیب اردوان اس وقت ملک سے باہر تھے۔ فوج کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا۔ مگر طیب اردوان نے ہار نہ مانی۔ انہوں نے بیرون ملک سے قوم کو آواز دی۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ انہوں نے گولیاں برساتے ہوئے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی پروا نہ کی اور طیب اردوان نے بالآخر عوامی مزاحمت کے ذریعے فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا۔ لیکن یہ طیب اردوان کے خلاف آخری سازش نہیں تھی۔ امریکا اور یورپ رجب طیب اردوان پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی پشت پر بھی امریکا موجود تھا۔ جس رات طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی ہم اپنے کمرے میں آرام کررہے تھے۔ ہماری بڑی بیٹی نے اچانک ہمیں آکر بتایا کہ مقامی چینلز خبر دے رہے ہیں کہ ترکی میں اردوان کے خلاف فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔ ہم نے اپنی بیٹی سے کہا کہ یہ پاکستانی چینل دیکھنے کا وقت نہیں جلدی سے سی این این لگائو۔ ہمارا خیال درست تھا۔ سی این این پر امریکی سی آئی اے کا ایک ریٹائرڈ افسر بیٹھا ہوا طیب اردوان کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ سول حکومتوں کے خلاف فوجی بغاوت کوئی اچھی چیز نہیں مگر طیب اردوان کا علاج یہی ہے۔ وہ ترکی میں اسلام کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اس کے زیر اثر ترکی میں اسلامی روح بیدار ہورہی ہے۔ چناں چہ اس کے خلاف فوجی بغاوت بالکل ٹھیک ہے۔ فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو طیب اردوان نے خود اس سلسلے میں فتح اللہ گولن کا نام لیا اور فتح اللہ گولن امریکا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
مصر میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ شرمناک ہے۔ مصر میں ناصر کا دور ہو یا سادات کا۔ حسنی مبارک کا زمانہ ہو یا جنرل سیسی کا فوج نے کبھی اخوان المسلمون کو سر نہیں اٹھانے دیا۔ ناصر نے اخوان کو کچلنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ سادات نے بھی اخوان کو کبھی عوامی اُبھار کا مظاہرہ نہ کرنے دیا۔ حسنی مبارک بھی اخوان کی گردن پر پائوں رکھے کھڑا رہا۔ مصر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سید قطب کو پھانسی دے کر ان کی فکر کو کچلنے کی سازش کی۔ سید قطب کا جرم یہ تھا کہ وہ مولانا مودودی سے متاثر تھے اور ان کی طرح قومی اور بین الاقوامی زندگی میں اسلام کو سربلند دیکھنا چاہتے تھے۔ صدر مرسی عوام کی بھرپور تائید سے مصر کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ مگر مصر کی سیکولر فوج نے امریکا کی مکمل پشت پناہی سے ان کے خلاف سازش کی اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اخوان نے ملک کے طول و عرض میں فوج کی مزاحمت کی تو فوج نے چند روز میں ساڑھے سات ہزار اخوانی مار ڈالے۔ دس ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ شہید ہونے والے اکثر اخوانیوں کو سر اور سینے میں گولیاں ماری گئی تھیں۔ اس سلسلے میں امریکا کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ اس نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا بھی قرار نہ دیا کیوں کہ اس صورت میں امریکا مصر کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہوجاتا۔ مصر کی فوج نے امریکا کی پشت پناہی سے ایک بڑی پیش رفت یہ کی کہ اخوان جیسی پرامن تنظیم کو پورے عالم عرب میں دہشت گرد تنظیم قرار دلوا دیا۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں الجزائر میں عام انتخابات کا پہلا مرحلہ طے ہوا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے میں الجزائر کے اسلامی فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ امکان تھا کہ دوسرے مرحلے میں اسلامی فرنٹ مزید بھاری اکثریت حاصل کرے گا مگر الجزائر کی فوج نے اس کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اور انتخابات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملتوی ہوگئے۔ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو دس سال میں دس لاکھ باشندوں کو نگل گئی۔ اس طرح الجزائر کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الجزائر میں اسلام کی بالادستی کی راہ مسدود کردی۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور انڈونیشیا کی سیاست پر بھی فوج کا غلبہ ہے۔ تیونس سیکولر ملک ہے تو تیونس کی فوج کی وجہ سے۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں کسی فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت کوئی فوج موجود ہی نہ تھی لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ انتہائی طاقت ور ہوگئی۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ روابط استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو باور کرارہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ہرگز ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ بلاشبہ جرنیلوں نے سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دیا مگر انہوں نے خود بھی ملک کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے ملک کو سیکولر بنانے کی خوفناک سازش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے دانش وروں سے سود کو حلال قرار دلوایا۔ انہوں نے ملک پر ایسے عائلی قوانین مسلط کیے جو اسلام کی ضد تھے۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے قوم کی سیاسی آزادی اور خودمختاری کو امریکا کے ہاتھوں فروخت کیا۔ انہوں نے امریکا کے معاہدوں سیٹو اور سینٹو پر دستخط کیے۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ’’امریکا مرکز‘‘ بنادیا۔
انہوں نے بڈھ بیر میں امریکا کو ایک فوجی اڈہ فراہم کیا۔ اس فوجی اڈے سے امریکا سوویت یونین کی جاسوسی کرتا تھا۔ چناں چہ سوویت یونین نے پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنا شروع کردیا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے ملک و قوم کو غیر ملکی قرضوں کے نشے کا عادی بنادیا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے جی ایچ کیو کو سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری میں ڈھالا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے استحصال کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے بنگالیوں کی اکثریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے پورے ملک کو ون یونٹ قرار دیا۔ یہ جنرل یحییٰ تھے جن کے دور میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔ یہ جنرل نیازی تھے جنہوں نے بنگالیوں کی توہین کی انتہا کردی۔ انہوں نے 1971ء کے بحران میں کہا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ جنرل یحییٰ تھے جن کے دور میں پاکستان کے 90 ہزار سے زیادہ فوجیوں سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ یہ جنرل پرویز مشرف تھے جنہوں نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کو لبرل بنانے کی سازش کی۔ جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جس کی وجہ سے آج تک پاکستان میں کوئی انتخاب منصفانہ نہیں ہوا۔ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے پاکستانی سیاست کو بھٹو، نواز شریف، الطاف حسین اور عمران خان جیسے کردار دیے۔ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے طلبہ یونین پر اس لیے پابندی عائد کی ہوئی ہے کہ پاکستان کی سیاست کو نیا اور بہتر خون فراہم نہ ہوسکے۔ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جو ہر مزاحمت کرنے والے سیاست دان کو سیاست سے باہر کردیتی ہے۔