بنام وزیر ِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ پاکستان

666

جناب، وطنِ عزیز کی مہنگائی کے ہاتھوں زبوں حالی آپ سے ہرگز چھپی ہوئی نہیں۔ تاہم میرے اس کھلے خط کا مقصد مہنگائی کا رونا نہیں، بلکہ حل تجویز کرنا ہے۔ اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ تو سب سے پہلے بابوئوں اور حکومت کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی مراعات ختم کریں۔ تمام افسران، ججوں، بیوروکریسی، وزیروں، مشیروں کی سرکاری گاڑیاں ختم کرکے بیچ دی جائیں۔ اپنی ذاتی گاڑیوں، ذاتی پٹرول پر دفتر آمدو رفت شروع کریں، گھر کے گیس، بجلی، ٹیلی فون کے بلوں کی ادائیگی اپنی تنخواہوں سے کریں، جس طرح ایک عام ملازمت پیشہ فرد و عوام کرتے ہیں، بیرونی اشیاء کا استعمال بند کریں۔ ایک ماہ میں کھربوں روپے کی بچت ہو جائے گی، چھے سال میں سارے کا سارا بیرونی و اندرونی قرضہ ادا ہو جائے گا۔ نان ڈویلپمنٹ بجٹ آدھا کریں۔ اللہ پر توکل کرو اور ابتداکرو۔ جبکہ اس وقت جو حل تجو یز کیا جا رہا ہے اس کے مطابق بجلی اور گیس کی سبسڈی مزید کم کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے بجلی و گیس صارفین کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سبسڈی ختم ہونے سے مہنگائی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں، البتہ حکومت کے پاس بیرونی قرض نہ ملنے سے بجٹ اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا نام لے کر اس قدر مہنگائی اور اتنے ٹیکس لگائے کہ امرا کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ ملک میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح 38 فی صد تک پہنچ گئی، جب کہ جنوبی ایشیا میں بھی سب سے بلند سطح ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری مہنگائی کے اعدادو شمار کے مطابق قومی سطح پر ایک سال میں کھانے پینے کی اشیا 48.65 فی صد جب کہ ٹرانسپورٹ کرائے 53 فی صد مہنگے ہوگئے۔ ایف بی ایس کے مطابق تفریحی سہولتیں گزشتہ سال کی نسبت 72فی صد مہنگی ہوئیں جب کہ ریسٹورنٹ اور ہوٹل چارجز میں بھی 42فی صد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے روادار نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ طاقتور اور متمول افراد اتنا ٹیکس ادا نہیں کرتے جتنی مراعات اور فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔ کاروباری طبقے کا کہنا ہے کہ وہ بزنس لین دین پر فکسڈ سیلز ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اونچی شرح کا ویلیو ایڈڈ ٹیکس (VAT) پاکستان کے مخصوص کاروباری ماحول میں قابل قبول نہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے صرف طاقتور اور بددیانت تاجروں، ٹیکس افسران اور مشیروں کا مافیا وجود میں آیا۔ اس مافیا کی مہربانی کی وجہ سے اس ٹیکس (VAT)کے حصول کی شرح صرف 7فی صد ہے جب کہ اسے 18 فی صد ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نا صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکس پاکستان میں درست طریقے سے رائج نہیں ہو سکا بلکہ اس کی اونچی شرح اور غیر لچک دار ضابطوں کی وجہ سے ان افراد کو خاصی دقت کا سامنا ہے جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان پر دباؤ میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں وہ لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جن کی آمدنی کم ہے جب کہ زیادہ اثاثے رکھنے والے ٹیکس بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں معاشی ناہمواری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دیکھنے میں آتا ہے کہ جب حکومت ٹیکس وصول نہیں کر پاتی تو اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لیتی ہے اور وصول ہونے والا تھوڑا بہت ٹیکس اس قرضے کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مزید قرض اور مزید ادائیگی۔ یہ چکر گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران اندرونی اور بیرونی قرضوں پر سود کی شرح ٹیکس کی وصولی کا 66 فی صد ہے۔ یہ بات تقریباً طے ہے کہ پاکستان میں موجودہ غربت اور ٹیکس کے ناقص نظام میں براہ راست تعلق ہے۔ 1991 کے بعد سے یہ صورت حال زیادہ سنگینی کی طرف گامزن ہے کیونکہ اس دور میں انکم ٹیکس کی آڑ میں بالواسطہ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک ٹیکس کا تمام تر بوجھ غریب آدمی نے اٹھایا ہوا ہے جب کہ دولت مند اور وڈیرے ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق غریب عوام 48 فی صد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ دولت مند افراد صرف 18 فی صد۔ اس کی وجہ سے دولت کی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے میں موجودہ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمے داری بھی زیادہ تر اسی ناہمواری پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ٹیکس کے نظام میں پائے جانے والے ان نقائص کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ان میں تبدیلی کا تقاضا کرتے رہتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے زیادہ دباؤ نہیں ڈالتے۔ حالانکہ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دولت مند اپنا دامن بچا جاتے ہیں جب کہ غریب آدمی پس رہا ہے۔ ان اداروں کی دلچسپی عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنی رقوم اور سود کی وصولی میں ہوتی ہے۔
سول اداروں کے نقائص اور کمزور جمہوریت کی وجہ سے ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ سے زیادہ خرابیوں سے دوچار ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام بھی جمہوری فوائد سے لطف اندوز ہوں۔ اس کے لیے سب سے اہم قدم محصولات کا منطقی اور شفاف نظام رائج کرنا ہے۔ دراصل یہ جمہوری حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ محصولات کی منصفانہ وصولی ممکن بنائے اور غریب عوام کو سہولتیں فراہم کرے۔ بالواسطہ ٹیکس یا سیلز ٹیکس پر بہت زیادہ دارومدار مزید معاشی خرابیوں کا باعث بنے گا کیونکہ کمزور طبقات پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تاجروں اور صنعت کاروں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے 10فی صد سیلز ٹیکس کی تجویز دو شرائط پر مان لے۔ پہلی شرط یہ کہ وہ اپنی درست آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کریں گے اور دوسری یہ کہ ٹیکس کی رقم کو ری فنڈ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح کا ٹیکس نظام امریکا سمیت بہت سے ممالک میں رائج ہے۔ ہم بھی مغربی ممالک کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنی حالت بہتر کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سیاسی قوتِ ارادی درکار ہے۔ ٹیکس پالیسی کا بنیادی مقصد عوامی فلاحی منصوبوں اور دیگر اخراجات کے لیے محصولات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس مشینری کی اصلاح کی جائے اور دولت کی تقسیم میں موجودہ خوفناک عدم مساوات کو جہاں تک ممکن ہو کم کیا جا سکے۔ معاشی ناہمواری کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی اونچی شرح، سرمائے کی منتقلی پر بھاری ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کو سختی سے وصول کیا جائے۔ مغربی ممالک میں تمام حکومتیں اس ضمن میں غیر لچکدار رویہ اپناتی ہیں تا کہ معاشرے میں بے چینی کا خاتمہ کر سکیں، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ ٹیکس کا نظام جتنا مرضی اچھا بنا لیں، اگر اسے نافذ کرنے کے سخت قوانین پر عمل درآمد نہ ہو تو سب کاوش اکارت ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتا۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس کی وصولی کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے غیر لچک دار نظام وضع کرے، وہ تمام اثاثے جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور وہ چاہے اندرون ملک ہیں یا بیروِن ملک، ان کو ضبط کرنے کے لیے قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے۔ اس جمہوری عمل کے ذریعے گزشتہ سات عشروں سے جاری لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی بلا روک ٹوک سرگرمی کا خاتمہ ہو سکے گا۔