برف پر چلتا ملک

619

ایک صاحب نے وضاحت طلب فرمائی ہے کہ عوام جماعت اسلامی سے دور کیوں ہیں۔ اس پر خاکسار کا مختصر جواب حاضر ہے۔
اس کا جواب تو کافی تفصیل طلب ہے مگر مختصراً یہ سمجھ لیں کہ جس طرح میڈیا پر اہل علم و دانش خاص طور پر مذہبی و دینی جماعتوں کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے کہ فلمی اداکار رقاص گلوکار شرابی زانی ہدایت کار لکھاری مر جائے تو اس کی موت کے چالیس سال تک میڈیا پر غم منایا جاتا ہے کہ اس نچنی یا گویے کو مداحوں سے بچھڑے چالیس سال گزر گئے عقل کے اندھوں کو یہ کون سمجھائے کہ ایسے بدکاروں کے مداح نہیں ہوتے بس واہ واہ کرنے والے واہ واہ کرتے ہیں مگر کوئی عالم دین، محقق، محب وطن، مدبر، مفسر کا انتقال ہوجائے تو آدھے دن بھی خبر نہیں چلائی جاتی چہ جائیکہ ان کی برسی پر انہیں یاد کیا جائے یہ ہے۔ میڈیا پالیسی تاکہ نئی نسل کے رگ و پے میں ان بدکاروں، شرابیوں، زانیوں کی محبت گھسیڑ دی جائے اور علمائے کرام، مفسرین کرام کا نام لیوا بھی کوئی نہ ہو یہی وہ پالیسی ہے کہ جب انگریز ہندوستان میں اپنے ظالمانہ پنجے گاڑ رہا تھا تو سب سے پہلے اس نے ہماری زبان کو ہم سے چھینا اور علمائے کرام کو توپوں کے دہانوں سے باندھ باندھ کر اُڑایا جاتا رہا اور انگریز کی یہ خوش گمانی کہ اس طرح عام مسلمان علما سے دور ہوجائیں گے خام خیالی ثابت ہوئی۔ اب یہی پالیسی انگریز کے زیر نگیں پاکستانی میڈیا پر اپنائی جا رہی ہے کہ کسی طرح عوام کو علمائے کرام سے دور رکھا جائے اور ساتھ ہی قیام پاکستان کے نظریات اور خاص طور پر دو قومی نظریے سے نئی پود کو تو بہت ہی دور رکھا جائے قائد اعظم علامہ اقبال مولانا مودودی شعراء کرام کے تو قریب بھی نئی نسل کو پھٹکنے نہیں دیا جائے۔
انہی پالیسیوں کے تحت جماعت اسلامی کا میڈیا پر مکمل بائیکاٹ ہے۔ جماعت اسلامی جو کیس عدالت سے جیت جاتی ہے اس کی خبر تو میڈیا نشر کردیتا ہے مگر جماعت اسلامی کا نام نہیں لیتا۔ خدمت اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں سیلاب زدگان کی امداد ہو یا کورونا میں گھروں میں فاقے پڑ رہے ہوں الخدمت کے رضاکار ہر دم پورے پاکستان میں عوام کی دہلیز پر امدادی سامان پہنچانے میں مصروف کار نظر آتے ہیں ابھی حال ہی میں بلوچستان میں جعفر آباد کے علاقے میں جماعت اسلامی نے پورے کے پورے مکان بنا بنا کر دے دیے مگر میڈیا پہ کہیں چھوٹی سی خبر آگئی ہو تو کہہ نہیں سکتا ورنہ عمومی طور پر اس کارنامے کا بھی میڈیا نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ سب جانتے ہیں یہ میڈیا وار کا دور ہے جو میڈیا سے آئوٹ وہ عوام سے آئوٹ۔ یہی ہمارا کہنا ہے کہ اگر جماعت اسلامی الخدمت اور دیگر مذہبی جماعتوں کو کما حقہٗ کوریج دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام تین سیکولر لُٹیری، کرپشن کی ماری جماعتوں کے سحر سے باہر نہ نکل سکیں اور یہ کوئی نہ کہے کہ کیا کریں کوئی چوائس ہی نہیں۔
اب جبکہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے تو مئیر کراچی جنوری ہی میں حلف اٹھا لیتا اسی طرح اگر ملکی سطح پر عام انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے رہتے تو قوم کے پچھتر سال ضائع نہ ہوتے اور ملک ٹوٹنے سے بچ جاتا۔ مگر ہمارے ملک میں مقتدر حلقوں نے قسم کھا رکھی ہے اور امریکا سمیت مغرب اور اسرائیل و بھارت کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ آپ سب جمع خاطر رکھیں پاکستانی قوم جمہوریت کے فیوض و برکات سے کبھی مستفیض نہیں ہونے دی جائے گی۔ آپ کی مرضی و منشاء کے مطابق ہی حکومتیں آتی رہیں گی اور ملک برف پر چلتا رہے گا یعنی ایک قدم آگے بڑھائے گا تو تین قدم پیچھے پھسل جائے گا۔