زر مبادلہ میں اضافہ کیسے؟

680

اس وقت ہماری تاریخ کا بدترین معاشی بحران روز بروز مزید گہرا اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے سابقہ و موجودہ حکمرانوں اور ان کے معاشی جادوگروں کے نزدیک اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ ہے آئی ایم ایف کی ہر شرط منظور کرکے قرضے کا حصول۔ دوسرے الفاظ میں ان کا فیصلہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی دلدل سے نہیں نکلنا۔

جماعت اسلامی پاکستان نے 22مارچ 2023 کو لاہور میں جس منشور کا اعلان کیا ہے۔ اس میں طے کیا گیا ہے کہ جماعت اسلامی کی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے خود انحصاری کا راستہ اختیار کرے گی۔ ہمارے نزدیک دنیا کا کوئی ملک قرضوں، غیر ملکی امداد یا کسی بھی طرح کی معاشی بیساکھیوں کے سہارے کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی کا راستہ (1) برآمدات میں اضافہ (2) درآمدات پرکنٹرول (3) سودی معیشت سے نجات (4) گُڈ گورننس کے ساتھ ٹیکس نیٹ میں پھیلاؤ (5) کرپشن اور فضول خرچی کے خاتمے کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

ہمارے منشور میں ان سب نکات پر قابل عمل حل دیے گئے ہیں اہم سوال یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض یا دنیا بھر سے کشکول گدائی کے ذریعہ بھیک حاصل نہیں کریں گے تو زرمبادلہ میں اضافہ کیسے ہوگا؟

ہمارے نزدیک زر مبادلہ میں اضافہ کے لیے لازماً برآمدات میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اور برآمدات میں اضافہ کے لیے زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اسی طرح صنعتی پیداوار میں اضافہ کے لیے بجلی و گیس کی سستے داموں بلاتعطل فراہمی بھی لازم ہے۔ ہماری حکومت یہ سب اقدامات کرے گی۔ ہم برآمدی صنعت کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کریں گے۔

l ایک علاقہ ایک صنعت پروگرام کے تحت کسی علاقے کی خاص پیداوار یا معدنیات کے لحاظ سے دس سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دیں گے۔

l ایگرو بیسڈ انڈسٹری، کاٹیج انڈسٹری، اسمال و میڈیم انڈسٹریز کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا خصوصی پیکیج دیں گے۔

l درآمد کیے جانے والے خام مال کو ملک کے اندر ہی بنانے والی انڈسٹریز کو 10 سال کے لیے خصوصی ٹیکس چھوٹ دیں گے۔ سرکاری اداروں کے ذریعہ مشینری کی امپورٹ پر سہولت کاری ہوگی۔

l ایکسپورٹ بڑھاؤ اسکیم کے تحت دس سالہ اقساط پر انڈسٹریل اسٹیٹ میں پلاٹ فراہم کریں گے۔

l ہر بزنس کو 25 فی صد ایکسپورٹ کرنے کا قانونی طور پر پابند کریں گے۔

l حلال میٹ، آئی ٹی خصوصاً سافٹ وئیر اور زرعی و ویلیو ایڈیڈ پراڈکٹس کو صنعت کا درجہ دیں گے۔

l بھارت کی آئی ٹی سروسز ایکسپورٹ انڈسٹری 150ملین ڈالر جبکہ ہماری صرف 3.5 بلین ڈالر ہے۔ ہم اسے پانچ سال میں 20بلین ڈالر تک لائیں گے۔

l ہم جدید ریسرچ، اعلیٰ پلاننگ اور بہترین مشینری کے ذریعہ زرعی پیداوار بالخصوص اعلیٰ اقسام کے چاول کی فی ایکٹر پیداوار میں 30 فی صد اضافہ کریں گے۔

l ایکسپورٹ ریسرچ اینڈ ڈویویلپمنٹ کے شعبے کو بزنس چیمبرز، تعلیمی اداروں اور انڈسٹریل اسٹیٹس میں زیادہ فعال کریں گے۔

l چاول، کپاس، گندم، چمڑے، اسپورٹس، قالین، کیمکلز کی ایکسپورٹ میں اضافے کے اہداف طے کریں گے۔

l ایکسپورٹرز کو خصوصی قومی اعزازات سے نوازیں گے۔ ان کا درجہ وی آئی پی کا ہوگا۔

l ایف بی آر میں ون ونڈو ایکسپورٹ ڈیسک ہوں گے۔ ڈیجیٹل نظام فروغ پائے گا۔

l سفارت کاروں کی ترقی کا انحصار ایکسپورٹ مارکیٹنگ پر ہوگا۔

l نئی منڈیاں تلاش کریں گے۔ غیر روایتی اشیاء کی ایکسپورٹ پر بھی توجہ دیں گے۔

l پاکستان کے ہر ضلعی مقام پر انگریزوں کے زمانے سے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں ودیگر افسران کی 200/200 کنال کی کوٹھیاں موجود ہیں۔ یہ ہر شہر کے وسط میں قیمتی کمرشل اراضی ہے۔ اسی طرح گورنر ہاؤسز ہیں۔ ہم اس تمام زائد کمرشل اراضی کو زرمبادلہ میں ادائیگی کی شرط پر بیرون ملک پاکستانیوں کو پرکشش قیمت پر فروخت کرکے زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔

l ایسی پرکشش اسکیم جاری کریں گے کہ سمندر پار پاکستانی اپنا زر مبادلہ ملک میں لائیں۔ اور انہیں یقین کامل ہو کہ ہمارا زر مبادلہ ملک سے قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے اور تعمیر وطن کے کام آئے گا۔

l تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات پر بھی کنٹرول ضروری ہے۔ سال 2022ء میں برآمدات 25 ارب تک پہنچیں جو حوصلہ افزا تھا۔ لیکن اسی وقت درآمدات 40 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

l برآمدات میں اضافہ 25 فی صد جبکہ درآمدات میں اضافہ 63 فی صد ہوا۔

l درآمدات میں پٹرولیم، آٹوموبائل، خوردنی تیل، دالیں، سیلولر فون، اشیائے تعیش شامل ہیں۔

l درآمدات میں بڑا بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ ہم قیمتی زرمبادلہ سے پٹرول درآمد کرتے ہیں۔ اور ایک لیٹر میں صرف 3کلو میٹر چلنے والی ہزاروں بڑی گاڑیوں کو مفت فراہم کرتے ہیں۔ ہماری حکومت یہ درآمدی بل کم کرے گی۔ اسی طرح جو اشیاء ملک میں پیدا یا تیار ہوسکتی ہیں۔ ان کے لیے زرِ مبادلہ خرچ کرنے پر پابندی ہوگی۔ مثلاً سولر پینل، چائے، دالیں، خوردنی تیل، اشیائے خوردنی۔ اینیمل وپولٹری فیڈز وغیرہ۔

درآمدی۔ برآمدی پالیسی کی کامیابی کا انحصار گڈ گورننس اور زیرو کرپشن پر ہی ہے۔ جماعت اسلامی اپنی اس صلاحیت کو کراچی کی ضلعی حکومتوں صوبہ خیبر پختون خوا کی وزارتوں اور الخدمت فاؤنڈیشن کی بے مثال کارکردگی کی صورت میں ثابت کرچکی ہے۔