نیا مالی سال: ترقیاتی بجٹ کیلیے تاریخی رقم مختص، تنخواہوں اور  پنشن میں اضافہ

425
unconstitutional

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے مالی سال 2023-24 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا، جس میں ترقیاتی بجٹ کے لیے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی رقم مختص کی گئی ہے جب کہ تنخواہوں اور پنشن میں بھی  اضافہ کیا گیا ہے۔

خبر رساں اداروں کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے 144 کھرب 60 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا، جس میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1150 ارب روپے کی تاریخی رقم رکھی گئی ہے۔ علاوہ ازیں دفاع کے لیے بھی 1804 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا، جس میں وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تجاویز پیش کرنے سے پہلے معاشی اعداد و شمار کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے معیشت کی تباہی، بدحالی اور مسائل کی وجہ تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت کو قرار دیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت نے بروقت مشکل فیصلے کرکے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کردیا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف سے معاہدہ ترجیح ہے۔ پوری کوشش ہے کہ اسٹاف لیول کا معاہدہ جلد ہو جائے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔موجودہ حکومت کے بروقت فیصلوں اور معیشت کو درست سمت لانے کی کوششوں کے نتیجے میں خسارے میں تقریباً 77 فی صد کمی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے لےجی ڈی پی صرف 3.5 فی صد رکھا گیا ہے۔ ملک میں جلد ہی الیکشن ہونے والے ہیں، اس کے باوجود نئے مالی سال کے بجٹ کو الیکشن بجٹ بنانے کے بجائے ذمے دارانہ بجٹ کے طور پر بنایا گیا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی درآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ  قرار دیا گیا ہے۔آئی ٹی کو ایس ایم ای کا درجہ دیا جائے گا، آئی سی ٹی کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ ایکسپینڈیچر میں 65 ارب روپے اور ڈیولپمنٹ ایکسپینڈیچر کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں 35 ارب روپے کی ٹارگیٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔استعمال شدہ کپڑے پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے۔بیواؤں کے قرض حکومت ادا کرے گی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2017 ، 2018 میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواؤں کیلیے بھی بجٹ میں اسکیم رکھی گئی ہے۔اس حوالے سے اسکیم متعارف کروائی جارہی ہے جس کے تحت بیواؤں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقایاجات حکومت ادا کرے گی۔ریسورنٹ میں کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر ٹیکس کی شرح کم کر کے پانچ فیصد مختص کی گئی ہے۔ریسٹورنٹ میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔آئندہ مالی سال میں گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں 35 فیصد کیا جا رہا ہے جب کہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر ملازمین کے ایڈہاک ریلیف میں 30 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ملٹری الاؤنس میں 7 ہزار سے 14 ہزار روپے مقرر کیا جائے گا۔