آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی

633

عدالت ِ عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے سے متعلق فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ عدالت کے دروازے پر احتجاج انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ 14 مئی کو پنجاب میں عام انتخابات کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے، لیکن یہ فیصلہ تاریخ بن چکا ہے اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز میں انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے، وقت گزر چکا ہے، اگرچہ 90 روز نہیں پھر بھی ہم نے اس تقاضے کو کسی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 14 مئی کو انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اب واپس لینا ممکن نہیں، انتخابات تو نہیں ہوئے، لیکن ہم نے اصول طے کر دیے ہیں کہ کن حالات میں انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اور کن حالات میں نہیں ہو سکتے۔ عدالت ِ عظمیٰ کے سربراہ نے اس موقع پر یہ بھی کہا ہے کہ اچھی بات ہے کہ حکومت اور اداروں نیقانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ کے سربراہ کی آئین اور قانون پر عملدرآمد میں ناکامی پر تشویش ان کی ذمے داری کو ساقط نہیں کر دیتی۔ پاکستان کی تاریخ میں دستور اور آئین کو طاقتوروں کا کھیل بنا دیا گیا ہے جس نے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے بجائے، طاقتوروں کی حکمرانی کو قانون بنا دیا ہے، ایسے طرزِ حکمرانی اور اس حکمرانی کو آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا نام دینا ایک سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ بھی اپنے فیصلے پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، یہ عمل ایک ایسے معاملے میں سامنے آیا ہے جس کے مطابق اس مسئلے سے تعلق رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا آئین کا تقاضا نہیں ہے۔ کتاب آئین میں کوئی ایسی دفعہ بھی موجود نہیں ہے جسے قانونی حیلے کے طور پر اختیار کیا جا سکے؟ اس تناظر میں 14 مئی کا دن آئین کے قتل کا دن بن گیا ہے۔ آئین کا قتل آئین کے مطابق سنگین غداری کا جرم ہے، ظاہر بات ہے کہ جس بنیاد پر نظام حکمرانی قائم ہوتا ہے اور ریاستی اداروں کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے وہ آئین ہے۔ آئین میں یہ درج ہے کہ اقتدار اعلیٰ اللہ کو حاصل ہے اور اس کے بندے اپنے منتخب نمائندوںکے ذریعے اللہ کی حکمرانی قائم کریں گے اور اس نیابت میں سول اور فوجی کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ مقننہ اس اختیار کے مطابق قانون سازی کرے گی اور انتظامیہ اس پر عملدرآمد کرے گی اور عدلیہ اس کی تشریح کرے گی۔ انتظامیہ کے ادارے سول اور فوجی دونوں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اصل المیہ یہی ہے کہ فوجی اور عسکری طاقت کی بنیاد پر آئین کو توڑ دیا گیا اور ریاست کی اصل بنیاد کو ڈھا دیا گیا، یہ کام ایک بار نہیں ہوا، 56 کا دستور جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے بنایا تھا، اسے ایک فوجی سربراہ نے مارشل لا لگا کر توڑ دیا، پہلے فوجی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کو توڑ دیا جسے اس نے اپنے مفادات کے مطابق بنایا تھا، دستور شکنی کی وجہ سے سقوط مشرقی پاکستان کی بنیاد پڑ گئی اور دوسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ایک بار پھر دستور ساز اسمبلی کے لیے انتخابات کرائے، لیکن اسے عمل میں ہی نہ آنے دیا ملک کی تقسیم کو قبول کر لیا، بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے لیکن اپنی قوم کے منتخب نمائندوں کو اقتدار حوالے نہیں کیا، اس کے باوجود سیاسی قیادت نے اپنے تجربات سے سبق سیکھ کر 1973ء کے دستور پر اتفاق کیایہ قومی اتفاق رائے کی دستاویز ہے اس دستور میں 19 ترامیم ہو چکی ہیں اس کے باوجود اس دستاویز پر اتفاق موجود ہے، جس کا بنیادی نکتہ نمائندہ حکومت اور سول بالادستی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ آئین شکنی کی تاریخ ہے، اسی وجہ سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکی۔ اس کا اعتراف سابق آرمی چیف اور موجودہ آرمی چیف نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ فوج سیاسی امور میں مداخلت کرتی رہی ہے لیکن اب وہ غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی، اس اعلان کا عملی ثبوت اب بھی قوم کو درکار ہے۔ پاکستان کے سیاسی بحران نے معاشی بحران بھی پیدا کر دیا ہے جس نے عام آدمی کی روزمرہ کی زندگی کو بھی اجیرن کر دیا ہے۔ نظام حکمرانی کی ناکامی قومی المیہ بن گیا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے نظام حکمرانی کے تمام ستون نوآبادیاتی حکمرانی کا ورثہ ہیں، تمام حکومتی ادارے ایک غیر ملکی حکومت کی وفاداری کے وارث اور اپنی قوم کے مجاہدین آزادی کے مقابلے میں انگریزی حکومت کے آلۂ کار اور سپاہی رہے ہیں۔ یہ لوگ 70 برسوں میں بھی اپنے ورثہ سے نجات حاصل نہیں کر سکے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عدالت عظمیٰ کا سربراہ بے بسی سے یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارا فیصلہ ’’تاریخ‘‘ بن چکا ہے۔ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر ریاستی اداروں کو پابند کرنے میںکامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔