فوجی امداد اور انسانی حقوق

1043

پی ٹی آئی کی جانب سے پاکستان کی امریکی فوجی امداد پر پابندی کی کوششوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اخبارات کے مطابق پی ٹی آئی امریکا کے ترجمان ساجد برکی نے دعویٰ کیا ہے کہ 86 ارکان کانگریس پی ٹی آئی کی درخواست پر دستخط کرچکے ہیں جبکہ 65 ارکان کانگریس نے بلنکن کو خط میں لکھا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کو ترجیح بنایا جائے۔ اخبار نے البتہ اس کام میں عمران خان کی تائید یا رضا مندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ایسی درخواست کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جارہا اور یہ کہا جارہا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے خلاف میمو گیٹ اسکینڈل بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا حوالہ بھی آیا ہے۔ بظاہر حکومتی حلقے اسے ملک دشمن اقدام اور غداری سے تعبیر کررہے ہیں۔ اس قسم کے مطالبات بہرحال کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھے گئے اور یہ پہلا موقع بھی نہیں ہے کہ ایسا کیا گیا ہو، البتہ اب تک فوجی حکمرانوں کے دور میں ان کی حکومت کے خلاف ایسی باتیں کی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی جنرل ضیا اور جنرل پرویز کے دور میں بھی اسی طرح متحرک تھی کہ پاکستان کی فوجی امداد کو انسانی حقوق کی صورت حال سے منسلک کیا جائے۔ لیکن وہ امریکا کیا جس کا ساری دنیا میں ایک اصول ہو۔ وہ بھارت، اسرائیل، بنگلادیش، چین سمیت ساری دنیا میں اپنی مرضی سے انسانی حقوق کے پیمانے مقرر کرتا ہے اور اپنی مرضی ہی سے پابندیاں عائد کرتا ہے۔ لیکن سردست پی ٹی آئی کے لوگوں کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد کو انسانی حقوق سے مشروط کرانے کی کوشش زیر بحث ہیاور دوسری جانب 9 اور 10 مئی کے واقعات ہیں۔ اس میں ہر ایک جانب سے الزامات اور جوابی الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اسی لیے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے 9 مئی کے واقعات کے حقائق جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو تقسیم در تقسیم کرنے کا عمل بھی بند کیا جائے اور 9 مئی کے واقعات پر رپورٹ تیار کرکے قوم کو حقائق سے آگاہ کیا جائے کہ ان واقعات کی حقیقت کیا ہے، کون ان کے پیچھے ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جس پر الزام ہو اس سے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ بھی عبث ہے۔ یہ بات تو سب جان چکے ہیں کہ حکومت اور فوج اور اپوزیشن اور عدلیہ آمنے سامنے ہیں ، ایسے میں حقائق کیونکر سامنے آسکیں گے ،قوم کو کبھی حقائق سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور ہر حکومت کے دور میں یہ صورت حال خراب رہی ہے۔ خواہ وہ فوجی ہو یا فوجی چھتری تلے سیاسی حکومت۔ پی ٹی آئی کے پاکستانی دوستوں کو ایک اور کام کرنا چاہیے تھا پاکستان کی عظیم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید میں 20 سال ہوچکے اس کے انسانی حقوق کے لیے وہ اگر اس طرح بے چین ہوجاتے جس طرح 9 مئی کے واقعات سے پاکستان کی فوجی امداد کو مشروط کرنے کے لیے ہورہے ہیں۔ آج کل پاکستانی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کے لیے ان کی بہن فوزیہ صدیقی اور سینیٹر مشتاق احمد امریکی وکیل کے ساتھ امریکا میں ہیں، یہ لوگ 86 سینیٹرز سے عافیہ کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان پر دبا? ڈالنے کے مطالبہ کرواتے۔ پاکستان کی بیٹی کی رہائی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرتے تو کم از کم پاکستان میں بھی کوئی ان کے بارے میں ایسی باتیں نہ کرتا جو اب کی جارہی ہیں۔ انسانی حقوق کا مطالبہ بھی امریکا سے کیا جارہا ہے جو ساری دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذمے دار ہے یا اس کے ذمے داروں کا سرپرست ہے۔ لیاقت بلوچ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قوم کو 9 مئی کے واقعات کے حقائق جاننے کا پورا حق ہے جس طرح پی ڈی ایم، پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہوئی ہے اسی طرح سے عافیہ کی رہائی اور 9 مئی کے حقائق سامنے لانے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ اگر صرف الزامات جوابی الزامات کا سلسلہ چلتا رہا اور انتخابات کا بگل بج گیا تو پھر یہ کھیل انتخابی مہم کا حصہ بن جائے گا اور ایک دوسرے کے خلاف مہم چلتی رہے گی۔ جو لوگ پاکستان کی فوجی امداد بند کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں اگر وہ اس کے بجائے یہ مطالبہ کریں کہ پاکستان کے فوجی لیڈروں کو مراعات نہ دی جائیں۔ سیاسی حکمرانوں کو فوائد نہ پہنچائے جائیں، ریٹائرڈ جرنیل ،سیاستدان اور بیوروکریٹ جب امریکا آئیں تو ان سے ان کے اثاثوں کے بارے میں معلومات لے کر انہیں امریکا میں رہنے کی اجازت دیں ، تا کہ قوم کو پتا تو چلے کہ ان کے لیڈر کہاں سے مال کماتے ہیں اور کہاں لے جاتے ہیں۔ پاکستان کی فوجی امداد بند ہونے کا نقصان جنرل عاصم منیر کو، شہباز شریف کو یا آصف زرداری کو نہیں ہوگا بلکہ اس کا نقصان تو پاکستان کو ہوگا۔ لہٰذا مطالبہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا نہیں پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کا ہونا چاہیے۔