عالمی منظر نامہ اور پاکستان

577

گزشتہ ہفتے جب ایک جانب پاکستان اپنے اندرونی معاشی اور سیاسی بحران کی وجہ سے شدید دبائو اور عالمی تنہائی کا شکار رہا تو دوسری جانب دنیا کی نگاہیں براعظم ایشیا کے تین خطوں میں تقریباً ایک ساتھ وقوع پزیر ہونے والے تین اہم سربراہ اجلاسوں پرمرکوز رہیں۔ ان تین اجلاسوں میں ایک اجلاس عرب لیگ کا تھا جو سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا، دوسرا اجلاس جاپان کے شہر ہیرو شیما میں منعقد ہوا جس میں جی ۷ کے سربراہان شریک ہوئے جب کہ اسی دوران پانچ وسط ایشیائی ممالک کا ایک تیسرا اہم اجلاس چینی صدر شی جن پنگ کی میزبانی میں ژیان شہر میں منعقد ہوا۔ ان تینوں اجلاسوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت جب ہم اندرونی محاذ آرائی کے شکار ہیں دنیا خاص کر وہ ممالک جو گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی دبائو اور تنہائیوں کے شکار تھے وہ کس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ عرب لیگ کے سربراہ اجلاس نے جہاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے علاقائی استحکام اور اقتصادی انضمام کے انتھک کوششوں کے باعث ان کے قد کاٹھ کو مزید بلند کیا ہے وہاں اس اجلاس کی قابل توجہ بات شام کے صدر بشار الاسد اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی موجودگی تھی۔ بشار الاسد نے 12 سال سے زیادہ کے وقفے کے بعد عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی جب سے 2011 میں عرب لیگ نے شام کو ملک میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے معطل کر دیا تھا۔ شام کی عرب مرکزی دھارے میں واپسی عرب بہار کے منفی اثرات سے نکلنے کی کوششوں کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے وسیع تر خطے کے بہت سے مستحکم ممالک میں خلل پڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کی حمایت سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان علاقائی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور عربوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے میں جوکردار ادا کررہے ہیں اس سے نہ صرف عرب دنیا بلکہ اس کے آس پاس کے وسیع خطے میں بھی دور رس تبدیلیوں کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں جاری سعودی ایران تعلقات کے نتیجے میں جہاں شام کی عرب لیگ میں واپسی ممکن ہوئی ہے وہاں اس پیش رفت کے نتیجے میں یمن میں کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور علاقائی امن کو مضبوط بنانے کی امیدیں بھی قائم ہوئی ہیں۔ عرب لیگ کے اجلاس میں ولی عہد کا پیغام بلند اور واضح تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مشرق اور مغرب کے دوست ممالک کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم امن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم اپنے خطے کو تنازعات کی آماجگاہ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے، ہمارے لیے ماضی کا صفحہ پلٹنے کے لیے کافی ہے کہ ہم ان تنازعات کے دردناک عرصے کو یاد رکھیں جن سے خطے کے لوگ دوچار ہوئے اور جن کی وجہ سے ترقی کا سفر رک گیا تھا۔
اس اجلاس کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے سامنے ایک ثالث کے طور پر ابھرا ہے اس اجلاس میں زیلنسکی کی شرکت نے حساس علاقائی تنازعات میں ثالثی کے لیے سعودی عرب کی دستیابی کا اشارہ دیا جس کا ثبوت زیلنسکی کا یوکرین روس جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثی کی سعودی پیشکش کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی رہائی کے لیے گزشتہ سال ولی عہد کی کوششوں کا شکریہ ادا کرنا تھا۔ دوسری جانب روس نے لیبیا، سوڈان اور یمن میں تنازعات کے حل کی حمایت میں عرب لیگ کے ساتھ یکجہتی کا پیغام بھیج کر امن کی کوششوں میں سعودی عرب کے فعال تعاون کو بھی تسلیم کیا ہے جسے سعودی سفارت کاری کی کامیابی سے تعبیرکیا جارہا ہے۔
جاپان کی میزبانی میں جی ۷ سربراہ اجلاس کا لہجہ اور انداز مختلف تھا۔ اس میں روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کو مزید ہتھیاروں کی فراہمی، روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ اس اجلاس میں سلامتی اور معیشت میں چین کا مقابلہ کرنے کے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔ واضح رہے کہ جی ۷ سربراہ اجلاس میں رکن ممالک جاپان، امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے علاوہ آٹھ مہمان ممالک آسٹریلیا، ہندوستان، برازیل، جنوبی کوریا، کوموروس، جزائر کوک اور یورپی یونین نے شرکت کی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جی۷ میں جہاں یوکرین کا مسئلہ سرفہرست رہا وہاں یوکرینی صدر زیلنسکی عرب لیگ کے اجلاس سے سیدھے اس اجلا س میں شرکت کے لیے پہنچے جہاں انہوں نے اپنے ملک کا مقدمہ جی 7 کے رہنماؤں کے سامنے پیش کیا۔ اس اجلاس میں روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرین کو ایف ۱۶لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے امریکی اعلان کو صدر زیلنسکی کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
عالمی منظر نامے پر گزشتہ ہفتے کی تیسری اہم پیش رفت چین-وسطی ایشیائی سربراہ اجلاس کا انعقاد تھا جس میں جمہوریہ قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے شرکت کی۔ چین وسطی ایشیا سمٹ کے اعلامیے میں شریک ممالک نے تجارت، ریل اور سڑک کے رابطوں کو فروغ دینے، پروازوں کو بڑھانے اور چین، کرغزستان اور ازبکستان کو ملانے والی سرحد پار ریلوے کی تعمیر کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ کانفرنس میں شریک تمام ممالک نے فوسل فیول، قابل تجدید توانائی، تعلیم، سائنس، سیاحت اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے طریقہ کار کی منظوری بھی دی۔ انہوں نے مزید زرعی تعاون کے امکانات تلاش کرنے کا بھی فیصلہ کیا جب کہ چین نے وسطی ایشیا سے زرعی مصنوعات کی درآمدات بڑھانے پر بھی رضا مندی کا اظہار کیا۔