دین اسلام اور جہاد

615

دین اسلام ایک خدائی نظریہ ہے جس کو اپنانے والے افراد کو مسلمان کہا جاتا ہے آج کل کے دور میں دین کے حوالے سے جو روایتی فرقہ واریت تھی اس کے مقابلے میں کچھ نئے نظریات اور تصورات بن چکے ہیں جو دین کی تشریح اپنی منشاء اور خواہشات کے مطابق کرتے ہیں مثلاً ایک طبقہ دین اسلام کو صرف اور صرف ثواب کا ذریعہ سمجھتا ہے اور اس فکر والے افراد کی توجہ عبادت اور عبادت خانوں تک محدود ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک ایسا فرقہ ہے جو اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح صرف ایک مذہب مانتا ہے اور وہ طبقہ دین کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی ایک سیکولر فکر رکھنے والا ہندو یا عیسائی اپنے مذہب کو دیتا ہے، اب ایک تیسری فکر بھی پیدا ہورہی ہے جو ہے تو تعداد میں کم مگر اپنی تعداد کے مقابلے میں ان افراد کی شرح میں خاصا اضافہ ہورہا ہے اور میرے خیال کے مطابق یہ ہی وہ لوگ ہیں جو دین کی اصل فکر کے زیادہ قریب ہیں یہ لوگ اسلام کو ایک متوازن نظریہ سمجھتے ہیں اور دین کو عبادات کی طرح دیگر دنیاوی معامعلات میں بھی مکمل حکم اور رہنماء سمجھتے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد اب ہم آتے ہیں دین میں جہاد کی اہمیت پر، اسلامی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کا کہنا تھا کہ جہاد کی اہمیت دین میں پہاڑ کی چوٹی کی ہے یعنی دین اسلام میں باقی عبادات اس پہاڑ کی بنیاد اور دیگر حصہ ہیں جب کہ جہاد اس پہاڑ کی چوٹی اور آخری منزل ہے اگر مسلمان مکمل طور پر اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں اس پہاڑ کی چوٹی تک لازماً پہنچنا ہوگا، قرآن کے فلسفے کو دیکھے توآپ کو اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ مسلمانوں کی زندگی آزمائش کے سوا کچھ نہیں قرآن کریم کی آیات کے مفہوم کو دیکھے تو اللہ فرماتا ہے کہ مومن تو وہ ہیں جو لڑے اللہ کی راہ میں اپنی جانوں سے اور اپنے مالوں سے تاکہ وہ فلاح کو پہنچ سکیں، قرآنی آیات کے اس مفہوم سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک مسلمان کی زندگی دنیا کے باقی انسانوں سے کس قدر مختلف ہے کیوں کہ اس کی منزل آخرت ہے، جب کہ آج کے دور کے اکثر وبیش تر علمائے کرام دین حق کے اصل مقصد اور پیغام کی طرف مسلمانوں کو متوجہ ہی نہیں کررہے بلکہ ان کا رجحان اور دلچسپی دین کے اختلافی اور فروعی معاملات میں ہے، دوسری جانب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 1990ء کے بعد سے جہاد کے حوالے سے عالمی سطح پر بہت سی غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا ہے اور اب جہاد اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، جبکہ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم جہاد کے بارے میں دنیا کو آگاہ کریں کہ جہاد مسلمانوں لیے اللہ کا عظیم حکم ہے جس کا مقصد غیر مسلموں کو قتل کرنا نہیں بلکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ اور امت مسلمہ کا دفاع کرنا ہے، دین میں جہاد کی ابتداء جہاد اکبر یعنی ایک مسلمان کی اپنے نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہوتی ہے اسی لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کے پہلے وہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے اور اپنے آپ کو نفسانی خواہشات، حرص اور لالچ سے آزاد کرے۔ دین اسلام ایک متوازن نظریہ ہے یہاں آپ کو افراط و تفریط نہیں ملے گی لیکن جب مسلمان جہاد کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے تو پھر مخالفین کو ہم خود موقع دیں گے کہ وہ اسلام کا تعلق دہشت گردی سے جوڑیں اسی لیے مسلمانوں کو اپنے دین کی حقیقی تعلیمات کے مطابق جہاد کرنا ہے کیوں کہ حدیث رسول ہے کہ جہاد تو قیامت تک جاری رہے گا، تاہم مسلمانوں کو کوئی ایسا اقدام نہیں کرنا جس سے دین کا اصل تشخص متاثر اور جہاد کو ایک خوفناک عمل بنا کر پیش کیا جائے۔