اپنے قضیوں میں کشمیر کو نہ بھولیں

643

ہر گزرتے دن کے ساتھ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کو دیکھا جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ طاقتور ممالک کیسے انسانی تاریخ کے بڑے المیے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ بھارت کے اقدامات اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر تنازع کشمیر سب سے پرانا ہے اور مطالبہ صرف اتنا ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے فیصلوں کے مطابق کشمیر میں استصواب کرائے اور کشمیریوں کو رائے دہی کا حق استعمال کرنے دیا جائے کہ وہ اپنا مستقبل بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتے ہیں۔ 2019 میں اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کرنے کے بعد سے، ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں معمول کی واپسی کے جھوٹے بیانیے کو بیچنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے مقبوضہ علاقے میں ترقی اور تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ بھارت کا یہ دعویٰ ناکام ہوگیا ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی سے پہلے سے بھی بدتر ہے۔

بھارت خطے کی اصل صورتحال کے بارے میں عالمی برادری کو گمراہ کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہندوستانی قبضے میں اپنا تاریک مستقبل دیکھتے ہیں اور اب وہ ہندوستانی توسیع پسندانہ اور نو آبادیاتی عزائم کے ذریعے غیر قانونی اور جبری غلامی کے طوق کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہندوستانی نظام انصاف بھی مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے بلکہ مجرموں کے سامنے سرنڈر کر چکا ہے۔ بھارت کی نو لاکھ سے زیادہ مسلح فوج کشمیریوں کی زندگی حرام کیے ہوئے ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے انسانیت سوز مظالم کے علاوہ یکطرفہ نوعیت کی قانون سازی کر کے کشمیریوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک بھارت تمام تر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کر سکا۔ کشمیر کی صورتحال ہمیشہ ہی سے نازک رہی ہے لیکن عوام نے ہمیشہ قابض افواج کی مزاحمت کی اور کر رہے ہیں اور ہر ذریعہ کو بروئے کار لاتے ہوئے قابض افواج کے خلاف مزاحمت کرتے رہیں گے۔ بھارت کی کشمیر سے متعلق پالیسی اس بات سے عیاں ہے کہ ایک کشمیری لیڈر افضل گرو کے خلاف مقدمہ ہوا اور اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی لیکن اعلیٰ عدالت کے جج نے جو فیصلہ سنایا اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’اس کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد نہیں لیکن بھارت کی اجتماعی سوچ کو مطمئن کرنے کے لیے اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے‘‘۔

جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور لوگ ابھی تک اس بات کے منتظر ہیں کہ وہاں اقوامِ متحدہ کے تحت استصواب رائے ہو۔ پاکستان کی طرف سے یہ مسئلہ ہر فورم پر اٹھایا گیا اور اب تک حمایت جاری ہے لیکن اقوام عالم اپنا وعدہ پورا نہیں کر پاتیں، اب تو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد دنیا بھر کو جواب ہی سا دے دیا ہے۔ او آئی سی کی طرف سے بھی مکمل اظہار یکجہتی کے بعد یہ قرار دیا گیا

کہ بھارت کشمیریوں کے انسانی حقوق غصب کرنے کے بجائے ان کو اظہار رائے کا حق دے۔ جہاں تک پاکستان کے موقف کا تعلق ہے تو اس میں تسلسل موجود ہے اور ہر فورم پر کشمیریوں کے حق رائے دہی کے لیے آواز بلند کی گئی، اگرچہ مختلف جماعتوں کا انداز فکر الگ الگ رہا لیکن موقف میں یکسانیت ہے جو اس کے باوجود موجود ہے کہ حالیہ محاذ آرائی کے دور میں کشمیر کے معاملے میں بھی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی ہوتی ہے۔ تاہم قومی سطح پر کشمیریوں کی مکمل حمایت موجود ہے۔ عوام تو سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر پوری قوم ایک پیج پر ہے تو سیاسی جماعتوں اور اکابر کو بھی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دکھ کا مقام ہے کہ ہم تو آپس میں اس بُری طرح تقسیم کا شکار اور بٹے ہوئے ہیں کہ خود اپنے ملک میں نظام کو چلنے نہیں دے رہے۔ آج ہمارا یہ ملک خدا داد پاکستان خطرات سے دوچار ہے۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کا مقابلہ اس صورت میں کرنا ہے اور آئی ایم ایف اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ پاکستان شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے، جن کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ اور بڑھیں گے اور مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا ایسے میں کسی فلسفے کی نہیں دانائی اور عقل کی ضرورت ہے کہ محاذ آرائی ترک کرکے ہمیں قومی سلامتی کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ملک کو آفات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے موضوع پر تقریبات تو ہو رہی ہیں لیکن قومی اتفاق رائے نظر نہیں آتا جو تمام امور میں ضروری ہے۔ جس طرح بھارتی استبداد کوئی نئی بات نہیں، اسی طرح یہاں کے حریت پسند عوام کی تحریک آزادی اور بھارتی و ریاستی حکومت کے خلاف ان کا احتجاج بھی کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔ ظالمانہ حربوں سے جموں و کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ پاکستان اور مسلم ممالک بھارت پر زور دیں کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق ذمے داریوں کو پورا کر نے کے ساتھ ساتھ اقوام متحد ہ کی قراردادوں کے تحت کیے گئے، اپنے وعدوں کی بھی تکمیل کرے۔

بھارتی ہتھکنڈے کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے دستبردار نہیں کر سکتے، حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے۔ عالمی برادری اپنی مجرمانہ خاموشی کو توڑتے ہوئے بھارت کو باور کرائے کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف اقوام متحدہ کی نگرانی میں غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ممکن ہے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جنونی بھارت فوج پر امن مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کے سینوں پر گولیاں برسا رہی ہے۔ اس ظلم پر کشمیری پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس حساس ترین مسئلے کے بنیادی فریق ہونے کی حیثیت سے پاکستان کا فرض اولین ہے کہ وہ سفارتی محاذ پر عالمی روابط اور عالمی اداروں و تنظیموں میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز بلند کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم، انسانی حقوق کی بدترین خلاف وزریوں اور درندگی پر مبنی اقدامات کو عالمی برادری کے سامنے لانے کے لیے کشمیر ی عوام کی ہر سطح پر مدد و رہنمائی کرے۔ کشمیری عوام پاکستان کو امید کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کو ان مظالم پر خاموش نہیں رہنا چاہیے کیونکہ پاکستان کشمیری عوام کی امنگوں اور امیدوں کا ترجمان ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل تلاش کیے بغیر برصغیر میں امن و سلامتی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔