ترکیہ: دوسرے مرحلے کے انتخابات اور عالمی اثرات

823

۔14مئی 2023 کو ترکیہ میں ہونے والے انتخابات میں تین صدارتی امیدواروں میں سے کوئی بھی 51 فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکا۔ ترکیہ کے انتخابات اس وقت ’’ریفرنڈم‘‘ کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ 87.99 فی صد ووٹوں میں سے صدر رجب طیب اردوان نے 49.5 فی صد ووٹ کمال قلیچ دار اوغلو نے 44.8 فی صد ووٹ اور سنان اوعان نے 5.17 ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ چوتھے صدارتی امیدوار محرم انجے نے الیکشن سے چند روز قبل دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اپوزیشن کے رہنما کمال قلیچ دار اوغلو کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ کیونکہ محرم انجے کی وجہ سے کمال اتاترک کے حامیوں کے سیکولر ووٹ تقسیم ہونے کی توقع تھی، لیکن دستبرداری کی صورت میں اس کا تمام ووٹ بینک کمال قلیچ دار اوغلو کی طرف پلٹنے کی امید تھی، لیکن قلیچ دار اوغلو کو بھی 51 فی صد ووٹ حاصل نہ ہوسکے، جس کی وجہ سے 28 مئی 2023 کو دوبارہ رن آف الیکشن ہوں گے۔ اب صرف طیب اردوان اور کمال قلیچ دار اوغلو کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ سپریم الیکشن بورڈ کے مطابق صدر طیب اردوان اور کمال قلیچ دار کے درمیان 25 لاکھ ووٹوں کے فرق کے باوجود صدارتی انتخابات نصف پوائنٹ سے بھی کم فرق کے باوجود دوسرے راؤنڈ میں چلے گئے ہیں۔ ترکیہ کے انتخابات کے نتائج نہ صرف خطے پر بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔کیونکہ 2023 کے بعد کا ترکیہ مسلم امہ کے لیے ایک مرتبہ پھر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ رجب طیب اردوان کی قیادت میں اسلامی دنیا کی لیڈر شپ حاصل کرنے کی خواہش کے علاوہ ترکیہ نے اپنے مفادات مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا حتیٰ کہ جنوبی امریکا تک وسیع کیے ہیں اور پھر حال ہی میں روس اور یوکرین کی جنگ میں مغرب اور روس کے درمیان رابطے کی کڑی کے طور پر کام کیا ہے۔ روس سے میزائل شیلڈ خریدنے اور ناٹو کا رکن ہونے کے باوجود امریکا کے ساتھ تعلقات میں آئی سرد مہری، یونان کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے مغربی دنیا اردوان کے دور کا خاتمہ چاہتی ہے اور امریکی انتخابات سے قبل صدر جو بائیڈن نے تو اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔
2023ء میں 100سالہ معاہدہ لوزان ختم ہورہا ہے، جس کے بعد ترکیہ اپنا تیل نکالنے اور فروخت کرنے میں آزاد ہوگا جس سے ترکیہ کی معیشت مضبوط ہوگی، وہ ایک امیر ترین ملک بن جائے گا اور پوری دنیا میں طیب اردوان کی قیادت میں ایک بار پھر مسلم ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایک مضبوط اسلامی بلاک بناسکتا ہے جو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے یقینا ناقابل ِ برداشت ہے۔ چونکہ ان انتخابات کے نتائج صرف خطے پر ہی نہیں پوری دنیا پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اسی لیے عرب اور اسرائیل اور دیگر دنیا انتخابات کے پہلے مرحلے کو بغور دیکھ کر اگلے مرحلے کا جائزہ لے رہی ہے۔ ترکیہ میں صدارتی اور 28ویں مدت کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹوں کی گنتی کے دوران عرب اور اسرائیل پریس کی جانب سے حیران کن تبصرے سامنے آئے۔ عرب اور اسرائیلی میڈیا نے بھی ان انتخابات کے نتائج میں خاصی دلچسپی لی۔ اسرائیل سے شائع ہونے والا اخبار Haaret میں we vote for hope کے عنوان سے شائع ہونے والی خبر کے مطابق قلیچ دار اوغلو جو پہلے راؤنڈ میں 50 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کے آمرانہ رہنما (طیب اردوان) کے لیے پہلا راؤنڈ جیتنے میں ناکام ہونے کا مطلب دوسرے راؤنڈ میں دو گنا زیادہ کوشش کرنا ہے۔ انتخابات کے دوسرے راؤنڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہر سیاسیات علی کوچ نے کہا کہ قلیچ دار اوغلو کے دوسرے راؤنڈ میں جیتنے کا امکان کم ہے۔ اس کے مطابق سنان اوعان کے حامیوں کی اکثریت طیب اردوان کو ووٹ دینے کا زیادہ امکان رکھتی ہے۔ قطر کے نیوز چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ پر ترک اپوزیشن کے حامیوں نے ’’صدارتی انتخابات کے حوالے سے بے چینی’’۔ کے عنوان سے شائع ہونے والی خبر کے مطابق حزب اختلاف کے ووٹروں نے ووٹوں کی شرح اور دوسرے راؤنڈ میں ہونے والے انتخابات کا خیر مقدم نہیں کیا۔
اردوان کے قریبی ذرائع نے لندن میں قائم مڈل ایسٹ آئی (MEE) سائٹ سے بات کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ ’’اردوان دو ہفتے بعد فتح حاصل کر لیں گے‘‘۔ ان کے مطابق سنان اوعان کے ووٹ بھی ان کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔ ریاض کے العربیہ کی خبر کے مطابق ترکیہ نے عثمانی دور کے بعد کے اہم ترین انتخابات کے پہلے راؤنڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ طیب اردوان جو 2003 سے اقتدار میں ہیں اور 10 سے زیادہ قومی انتخابات میں ناقابل شکست رہے ہیں، پہلے راؤنڈ میں الیکشن جیتنے کے لیے ضروری 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں بہت کم شرح سے (0.5 فی صد) محروم رہے ہیں۔ قاہرہ کے Cairo 24.com نے خبر کو عنوان دیا کہ ’’اردوان انتخابات میں اپنا غلبہ کھو چکے۔ اس کے مطابق بیلٹ باکس کھلتے ہی اردوان کے ووٹوں میں کمی دیکھنے کو نظر آئی‘‘۔ لندن سے شائع ہونے والے اور مشرق وسطیٰ کے ایک اہم اخبار سرکل اوست (Sarkul Avast) میں ’’ترک انتخابات میں دوسرے راؤنڈ کی توقع ہے‘‘ کے عنوان سے سرکاری میڈیا اور آزاد ذرائع میں تضاد ہے، کی خبر لگائی۔ اس نے مزید لکھا کہ 14 مئی 2023 کو ہونے والے انتخابات جمہوریہ ترکیہ کی تاریخ کے سب سے ’’اہم انتخابات‘‘ تھے۔ جس کے دوران ترک لیرا، ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو ماہ کی کم ترین سطح پر آگیا تھا۔ ’’عرب نیوز ڈاٹ کام‘‘ کے مطابق ’’ترکیہ کی تاریخ دوسرے دور کی طرف بڑھنے کے ساتھ ساتھ اردوان عروج پر ہے‘‘۔ کے عنوان سے شائع ہونے والی خبر میں کہ ترکیہ ایک ایسی صبح بیدار ہوا جہاں انتخابات میں رن آف کا امکان جاری تھا۔ کیونکہ قدامت پسند صدر طیب اردوان نے پولنگ کمپنیوں اور ان کے سیکولر حریفوں کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ قبل از انتخاب رائے عامہ کے جائزوں اور پول کمپنیوں نے پیش گوئی کی تھی یہ الیکشن طیب اردوان کی حکومت کا پہلے ہی راؤنڈ میں خاتمہ کر دیں گے لیکن رزلٹ ان کی امیدوں کے برعکس آیا۔ صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو نے اسی دوران روس پر الزام عائد کیا کہ وہ ان انتخابات پر اثر انداز ہورہا ہے۔ ان کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے ترکی کے وزیر خارجہ چاؤش اوغلو نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ روس یا مغرب ہمارے انتخابات میں مداخلت کریں۔
وزیر خارجہ چاؤش اوغلو نے صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو کے سوشل میڈیا پر دیے گئے اس بیان پر کہ ’’انتخابات میں مانٹیجز، ڈیپ فیک کونٹینٹ، گہرے جعلی مواد، ٹیپس اور پھیلائی گئی سازشوں کے پیچھے روس ہے‘‘۔ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سی این این ترک کی نشریات میں اس الزام کے بارے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں شکوک کی فضا پیدا کرنا بھی نا انصافی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ روس، مغرب یا کوئی بھی ان انتخابات
میں مداخلت کرے۔ کسی کو بھی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ کوئی کر سکتا ہے۔ الیکشن کا دوسرا راؤنڈ بھی شفاف ہوگا اور ترک عوام اپنے لیے صدر کا فیصلہ کریں گے۔ صدارتی امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر یہ میسج بھی شیئر کیا کہ you are the behind the cassette installation قلیچ دار اوغلو کے مطابق اگر روس 15 مئی کے بعد ہماری دوستی کا تسلسل چاہتا ہے تو ترک ریاست سے ہاتھ کھینچ لے۔ وہ اب بھی روس سے تعاون اور دوستی کے حق میں ہیں۔
14مئی کے انتخابات کے بعد صدارتی
امیدوار قلیچ دار اوغلو نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ شیئر کی۔ پیارے لوگو، ہم کل سے نان اسٹاپ کام کر رہے ہیں۔ مایوسی میں مت پڑنا۔ میں ثابت قدم کھڑا رہوں گا۔ میں آپ کو اپنے واضح مشاہدات بتاؤں گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ہم کھڑے ہو کر یہ الیکشن مل کر لڑیں گے۔ ہر چیز کے آخر میں وہی ہوگا جو ہماری قوم کہے گی۔ انہوں نے اپنی ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا ’’میں یہاں ہوں، میں قسم کھاتا ہوں کہ میں آخر تک لڑوں گا۔ جبکہ صدر رجب طیب اردوان نے 14 مئی کے الیکشن کے بعد کہا کہ صدارتی انتخابات کو ادھے پوائنٹ سے بھی کم فرق کے ساتھ ہم نے دوسرے راؤنڈ میں چھوڑ دیا ہے۔
ہم اپنے عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم جیت کر ابھریں گے 28 مئی کو ہونے والے انتخابات میں ہم 14 مئی کو حاصل کردہ ووٹ کی شرح میں اضافہ کریں گے۔ 14 مئی کے انتخابات جو ہماری تاریخ کے سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ والے انتخابات ہیں، ایک تہوار کے ماحول میں ہوئے۔ ہماری قوم نے 27 ملین سے زائد 49.5 فی صد ووٹوں کے ساتھ ہم پر بڑا احسان کیا اور ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں عوامی اتحاد کو اکثریت دی۔ ترک عوام نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ہم پر اور ہمارے اتحاد پر اعتماد کر کے یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ میں اپنے تمام شہریوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے 14 مئی کو ہونے والے انتخابات میں اپنے آزادانہ مرضی کا اظہار کیا اور ہمارے 40 لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں نے جمہوریت میں شراکت اپنے ووٹ کے ذریعے ظاہر کی۔ ان انتخابات میں ترکی نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ دنیا کے جدید ترین جمہوری کلچر والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہم اپنے تمام شہریوں کے ووٹ کی خواہش رکھتے ہیں چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے محبت کرتے ہوں۔