گرفتاری کے بعد فوری رہائی

713

گزشتہ منگل کے روز وطن ِ عزیز میں قانون شکنی اور تخریب کاری سے بھرپور جس قسم کے ہنگامے بپا ہوئے اس کے بارے میں آئی ایس پی آر کا یہ بیان کہ نومئی کا دن ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ جو کام ملک کے ابدی دشمن 75برس میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی لبادہ اوڑھے ایک گروہ نے کر دکھایا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب اعلامیہ کے بموجب قانون کے مطابق حراست کے فوراً بعد آرمی کی املاک اور تنصیبات پر حملوں اور فوج مخالف نعرے بازی کو آئی ایس پی آر کے بیان میں اس گھنائونی کوشش کا حصّہ قرار دیا گیا کہ پاک فوج اپنا فوری ردّعمل دے جسے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ غیر مبہم لفظوں میں مذکورہ کارروائی کو پیشگی منصوبہ بندی، احکامات اور ہدایات کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ فوج نے انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرکے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ بیان کے بموجب تمام ملوث عناصر کی شناخت اور فوج بشمول تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردّعمل دیا جائے گا جس کی ذمے داری اس ٹولے پر ہوگی جو پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔
فوج کے بیان میں جس سازش یا کوشش کا ذکر کیا گیا وہ اگر کامیاب ہو جاتی تو جو صورتحال عوام، ملکی سلامتی اور ریاستی امور کے حوالے سے پیدا ہوسکتی تھی اس کا تصور بھی ہولناک ہے۔ بدھ کی شب وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں دوٹوک لفظوں میں کہا کہ حساس سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں نے ملک دشمنی کا ثبوت دیا۔ قانون ہاتھ میں لینے والے شرپسندوں کو آئین و قانون کے مطابق قرار واقعی سزاملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کیس کے تمام ثبوت و شواہد موجود ہیں۔ 190ملین پائونڈ کے معاملے کو لفافے میں بند کرکے وزراء کو مکمل اندھیرے میں رکھتے ہوئے کابینہ سے منظور کرایا گیا۔ اُدھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہرے دوسرے دن بدھ کو بھی جاری رہے، جن میں کم از کم 8افراد جاں بحق اور 290 زخمی ہوئے۔ اسلام آ باد میں پولیس آفس، لاہور میں تھانے، پشاور میں ریڈیو اسٹیشن، چکدرہ اور لوئردیر میں اسکائوٹس فورٹس جلا دیے گئے ہیں۔ سرکاری املاک نذرآتش کرنے سمیت توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو میں ملوث 1280 سے زائد افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں، جبکہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پنجاب، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔
دریں اثناء ایسی آڈیو لیکس سامنے آئیں جن سے خانہ جنگی کی کوششوں اور کور کمانڈر ہائوس لاہور کو تباہ کرنے کے ارادے کا اظہار ہوتا ہے۔ مبینہ آڈیو لیکس پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں سے متعلق بتائی جاتی ہیں۔ ان کی صحت کا جہاں حکومت کوجائزہ لینا چاہیے وہاں پی ٹی آئی قیادت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ وضاحت جاری کرے۔ ملک اس وقت جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس میں ضروری ہے کہ عمران خان سمیت ہر فرد کے ٹرائل پر تمام حلقوں کا اعتماد مستحکم ترکیاجائے، جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنے احتجاج میں تشدد کا عنصر شامل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ دوسری جانب سول سوسائٹی کو سیاسی مکالمہ کلچر کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت آج کے پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ پسے ہوئے طبقے کی مالی سہولت کے لیے بھی کوئی راہ نکالی جانی چاہیے۔
بعد ازاںجمعرات کو عدالت عظمیٰ نے القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے گرفتار چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو عدالت عالیہ اسلام آباد سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتا ہے تو مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ میں مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران دو اہم پیش رفت ہوئیں ایک تو عدالت نے ایک اصول و ضابطہ طے کر دیا کہ عدالت کے احاطے سے کسی شہری کو آئندہ گرفتار نہیں کیا جائے گا، نیز احاطہ عدالت سے گرفتاری کے لیے پولیس کے سوا کوئی نفری بغیر اجازت نہیں آئے گی۔ دوسرا چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مذاکرات کا آغاز کریں، اس سے معاشرے میں امن آئے گا۔ دورانِ سماعت معزز چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں طرف سے بیانیہ شدید ہو چکا ہے آئین پر عمل تبھی ہوسکتا ہے جب امن و امان کی صورتحال معمول کے مطابق ہو بیشک آپ کو مخالفین پسند نہیں لیکن ان کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی بات چیت کریں۔ عدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو یہ سمجھائو کہ مذاکرات کا آغاز کریں اور ناپسندیدگی کے باوجود اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر باہمی معاملات طے کریں دراصل قومی ضرورت اور عوامی جذبات کا اظہار ہے۔ عدالت کی جانب سے اس سے قبل بھی متعدد بار مذاکرات اور بات چیت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے؛ تاہم عدالت ِ عظمیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ سیاستدانوں کو مذاکرات کی راہ دکھانا کوئی عدالتی حکم نہیں بلکہ ایک مشورہ ہے۔
گزشتہ تین چار روز کے حالات و واقعات نے اس بیانیے پر مہر ِ تصدیق ثبت کی ہے کہ ہمارے اکثر معاشی مسائل کی جڑیں سیاسی معاملات میں پیوست ہیں اور جب کبھی سیاسی معاملات اتار چڑھائو کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا براہِ راست اثر اقتصادی صورتحال پر بھی پڑتا ہے۔ ڈالر کا مہنگا ہو کر تاریخی بلند ترین سطح کو چھونا اور اسٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کو سیاسی بحران سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ سیاسی بحران گزشتہ ایک سال سے پورے قومی منظر نامے پر حاوی ہے اور سبھی درپیش مسائل کو دوچند کر رہا ہے۔ ملک کے معاشی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں مگر سیاسی قیادت ان کے حل پر متوجہ ہونے کے بجائے باہم متصادم نظر آ رہی ہے۔ اس پر مستزاد سیاسی تنائو میں اضافہ اور جلائو گھیرائو کی سیاست جو عالمی سطح پر بھی ملکی ساکھ کو داغدار کر رہے ہیں۔ جب یہ بات طے ہے کہ سیاسی بحران کا حل باہمی بات چیت اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے سے نکل سکتا ہے اور ہمارے دوست ممالک بھی ہمیں یہ صلاح دے چکے ہیں تو پھر اس راہ سے گریز پائی کیوں اختیار کی جا رہی ہے؟ عوام سیاسی قیادت کو اپنے مسائل سیاسی ایوانوں میں حل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک سیاسی قیادت باہمی مسائل کو حل کرنے کے بعد یکسو ہو کر ملکی مسائل کے حل پر متوجہ نہیں ہوگی تب تک حالات جوں کے توں رہیں گے بلکہ مزید ابتری کا شکار ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ سیاسی قیادت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفین سے بات چیت کا آغاز کرے گی تاکہ سیاسی مسائل کو ان کے اصل مقام یعنی سیاسی ایوانوں میں حل کیا جائے نہ کہ ہر معاملے میں عدالتی دروازہ کھٹکھٹا کر عدالتی بوجھ میں اضافہ کیا جائے۔