عدلیہ کی ذمے داری

484

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا تجزیہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہے مگر بدنصیبی یہ ہے قوم شخصیت پرستی کی وبا میں مبتلا ہے اس کی سماعت حق بات سننے کی روادار ہی نہیں قوم کا بچہ بچہ اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہے کہ سیاسی ٹرائیکا کی جنگ ملک وقوم کے لیے نہیں ذاتی مفادات کے لیے ہے انہوں نے توشہ خانے کو بھی وراثت کی طرح آپس میں بانٹ لیا اندرونِ ملک اور بیرون ملک اربوں کی جائداد بنائی ایک اندازے کے مطابق سیاسی ٹرائیکا سے وابستہ لوگ ہزار ارب اثاثوں کے مالک ہیں یہ اثاثے واپس آ جائیں تو جھولی پھیلانے اور کشکول اُٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے یہ کیسی حیران کن بات ہے کہ جس ملک کی عوام آٹے کے حصول کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں جس ملک کا طبقہ ہزاروں ارب اثاثوں کا مالک ہے مگر ان کرپٹ جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کی کرپشن عدلیہ کو نظر نہیں آتی اور نیب کو بھی دکھائی نہیں اب یہ کام عوام کو کرنا پڑے گا ورنہ ان کی آنے والی نسلیں بھی بھوک اور افلاس کے جہنم کا ایندھن بنی رہیں گی یہ کیسی تکلیف دہ بات ہے بھارت ایک ہندو ریاست ہے وہاں مساجد کے امام اورمؤذن کو تنخواہ دی جاتی ہے پاکستان جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے مساجد کے لیے چندہ لیا جاتا ہے اور عدلیہ ابھی تک انگریز کے قانون کے قاعدے کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔
معزول وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پر جو رد عمل دیکھنے کو آیا وہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ عدلیہ نے اس کی مذمت نہیں کی سو اس پس منظر میں قانون کیسے حرکت میں آ سکتا ہے حالانکہ اس حقیقت کا ادراک سبھی کو ہے کہ کوئی بھی ملک قانون کی پاسداری کے بغیر خود مختار نہیں ہو سکتا خود مختاری آزادی کی علم بردار ہوتی ہے، علم بردار ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے تو آزادی کا علم زمیں بوس ہو جاتا ہے۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان عطا عمر بندیا ل کا ارشاد گرامی ہے کہ عدلیہ کو مذاکرات سے کوئی لینا دینا نہیں الیکشن آئین کے مطابق ہی ہوں گے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو مذاکرات سے کچھ لینا دینا ہے یا نہیں مگر یہ بات یقینی ہے کہ عدلیہ عوام کی بنیادی حقوق کی محافظ ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے سیاسی معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتی ہے چیف صاحب کا یہ فرمان بھی قابل توجہ ہے کہ عدلیہ فیصلہ کر چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے لیڈر اور قانون سے کتنے وفا دار ہیں یہاں بھی معاملہ حقائق کے برعکس ہے کون قانون سے کتنا مخلص ہے اور اس کی وفاداری کی حد کیا ہے کیونکہ قانون کی وفاداری جج صاحبان کی ذمے داری ہے عوام کی ذمے داری تو قانون کی پابندی اور جہاں تک لیڈر سے وفاداری کا تعلق ہے کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے عوام کو لیڈر سے نہیں ملک سے وفادار ہونا چاہیے معزول وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو تخریب کاری کی گئی ہے وہ ملک سے غداری کے مترادف ہے کاش عدلیہ یہ بات سمجھ سکتی کہ ملک کے غداروں کو سہولت کاری میسر کی جائے کی یہ غداری سے بھی سنگین جرم ہے۔
کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت کا روپ دھارنے لگتا ہے کہ عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے مخصوص شخصیات کا تحفظ کر رہی ہے عوام کے مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں مگر خاص شخصیات کا مقدمہ پلک جھپکتے ختم کر دیا جاتا ہے دن ہو یا رات جج صاحبان اور جسٹس صاحبان کے پاس ان کے مقدمات سننے کے لیے وقت کی کوئی کمی نہیں مگر عوام کے مقدمات کی سمات کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ عوام کے مقدمات کی سمات کرنے کے بجائے جسٹس صاحبان لیفٹ اوور کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔