انسانیت کی پیشانی پر لکھی تقدیر

672

آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی پر قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ مذ ہب کو کبھی سیاست میں استعمال نہیں کیا۔ یہ فرماتے ہوئے زرداری صاحب کا انداز ایسا تھا جیسے کسی باعث خطر چیز سے انہوں نے ملک وقوم کو بچایا ہو جس پر وہ داد کے مستحق ہیں حالانکہ اس جہالت پر نوحہ خوانی لازم ہے۔ سیاست میں زرداری صاحب زر اور چالاکی کے جس باہمی تعلق پر یقین رکھتے ہیں انہیں ایسی جمہوریت ہی زیبا ہے جس میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پزیر ملک میں معاشرتی رتبہ، اختیارات اور دولت کے حصول کے لیے میکیا ولی کی روح کی ترجمان جس جمہوریت اور سیاست کی ضرورت ہے اس میں شیطانی قوتیں اسی وقت متحرک ہوکر اپنا طاقتور کردار ادا کرسکتی ہیں جب اس میں مذہب غالب قوت نہ ہو۔
سیاست مذہب سے آزاد ہو اسلام میں اس جہالت کا کوئی تصور نہیں۔ دنیا جن مظالم اور پیچیدگیوں کی شکار ہوتی چلی جارہی ہے اس نے دین اور سیاست کی علٰیحدگی کی ’’روشن فکری‘‘ کی قدرو قیمت بس اتنی باقی رہنے دی ہے کہ اسے تاریخ کے کسی کباڑ خانے میں بہت نیچے دفن کردیا جائے۔ صدیوں کے تجربات کے بعد مغرب نے دین اور سیاست کی تفریق کاجو ڈنکا بجایا ہے جو نظام تشکیل دیا ہے زندگی کے ہر شعبے میں وہ بہت مصنوعی اور دنیا کو سنبھالنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اس سچ سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دین اور سیاست کی جدائی نے دنیا کو، انفرادی اور اجتماعی زندگی کو، ظلم سے بھردیا ہے۔ ہزاروں سماجی اور معاشرتی برائیوں نے جس طرح ہر شہر اور ہر قطعہ زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کے بعد انسانیت کے پاس سکون اور امید بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے کیو نکہ سکون اور امید اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ دین کو سیاست وریاست سے دور رکھنے کی خباثتوں اور بے انصافیوں کا شعور دنیا میں جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس کے بعد یہ نظریہ کوئی جدید اور روشن نظریہ نہیں رہا۔ جلد ہی اہل سیاست کی دنیا، سیاسی تبصروں اور تجزیوں میں اسے ایک قدیم نظریہ کے طور پر ذکر کیا جائے گا جو بالآخر دنیا کے لیے اجنبی قرارپایا۔ ایک ایسا واقعہ، عوام الناس سے لا تعلق ایک ایسا مردہ تصور جسے فراموش کردیا گیا۔ جدید اور روشن فکری کا مظہر جو نیا نظریہ اور نظام ہوگا، جدید سیاست اور ریاست جس پر استوار ہوگی، وہ دین اور سیاست کے اجماع کا نظریہ ہوگا۔ سیاست، ریاست اور فرد کا ماڈرنائز نصب العین وہ ہوگا جو اسلام کا طے کردہ ہوگا۔
جو نئی اور جدید دنیا تشکیل پارہی ہے اس میں ریاست اور حکومت میں سیاسی عمل اسلام کے بغیر اتنا معمولی اور حقیر ہوگا جو اپنے آپ کو قائم رکھ سکے گا اور نہ ترقی اور جدیدیت سے اس کا کوئی تعلق ہوگا۔ وہ مرجائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا امکان اس کے پاس نہیں ہوگا۔ اسلام پوری زندگی کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے قوانین کا پابند دیکھنا چاہتا ہے ۔ ایسا ممکن نہیں کہ انفرادی زندگی میں تو اسلام جاری ہو لیکن سیاست، حکومت اور ریاست کفر سے اخذ کی جائے۔ لادینیت کے دقیانوسی اور سڑے گلے نظریہ کو ترک کرکے دنیا جس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اس میں اسلام زندگی کے ہر شعبے کی صورت گری کرے گا۔ دنیا کی اصلاح کے لیے اسلام جس طریق عمل پر زور دیتا ہے وہ صرف وعظ اور ذکر تک محدود نہیں ہے سیاسی طاقت اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سیاسی طاقت سیاسی رہنمائوں اور حکمرانوں کی متضاد سوچوں، حکمت عملیوں، نظریات اور وضع کردہ فضول نظاموں کو روبہ عمل لانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ دین کے قیام اور شریعت کے نفاذکے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ ایسی سیاست اور حکومت جس میں سیدالمرسلین محمدؐ کی شریعت کی پابندی نہ ہو اسلام میں مردود اور ناقابل برداشت ہے۔
حکمران قوتیں سابقہ ادوار کی طرح بادشاہ ہوں یا آج کل کی طرح عوامی رہنما مسلمان ہمیشہ ریاست اور حکومت کو اسلامی اصولوں اور شریعت کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے جدوجہد ان کے دین اور ایمان کا تقاضا اور ناگزیر حصہ ہے۔ اللہ کی آخری کتاب اور عالی مرتبتؐ کی احادیث میں جس طرح اخلاق اور حسن کردارکی تعلیمات پائی جاتی ہیں اسی طرح سماجی اور معاشرتی زندگی، تمدن، معیشت اور سیاست کے بارے میں بھی واضح اور متعین احکامات موجود ہیں۔ اگر اس دوسرے حصے کو ریاست اور حکومت سے خارج کردیا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شریعت کا ایک حصہ معطل کردیا گیا ہے۔ اسلام کو یہ منظور نہیں۔ اسلام اپنا پورا پورا نفاذ چاہتا ہے۔ اسلام میں پورا پورا داخل ہونا پڑتا ہے۔ کوئی کتنی ہی بڑی سیاسی تنظیم اور جماعت ہو یا مرکزی قوت کی حامل سیاسی شخصیت ہو، اسلامی ریاست میں وہ دین اور سیاست کو جدا نہیں کرسکتی۔ اسلام زندگی کے ہر گوشے کو اللہ کے دین کے پختہ تابع کرنا چاہتا ہے۔ سیاست اللہ کے دین کی اطاعت سے باہر ہو مسلمانوں کی ریاست میں کسی تجربے، کسی عمل، مقصد اور طریق کار میں اسلام اس تفریق کو گوارا نہیں کرسکتا۔ رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’اسلام اور حکومت وریاست دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گرجاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے‘‘ (کنزالعمال)
اسلامی ریاست کا قیام صرف مسلمانوں کی نہیں دنیا کی ضرورت ہے۔ مغرب میں پاپائیت اور بادشاہوں کے گٹھ جوڑ نے جن مظالم کو جنم دیا، لادینی ریاست اس کا ایک ردعمل تھی۔ مغرب میں ایک تحریک کے نتیجے میں اس فکر کو قبولیت حاصل ہوئی کہ مذہب کو انفرادی زندگی تک محدود رہنا چاہیے۔ ریاست وحکومت، اجتماعی اور سیاسی زندگی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ مغرب نے اور دنیا نے اس کی کیا قیمت ادا کی اس کا جواب بڑا ہولناک ہے۔ فردکے ذاتی اغراض اور خواہشات کی تکمیل تک محدود ہونے سے صرف خاندانی نظام کی جوتباہی ہوئی ہے اس کی تفصیلات ہی اتنی اندوہناک ہیں کہ آدمی کانپ کررہ جاتا ہے۔ جنسی آوارگی عام ہوگئی، گزشتہ ایک صدی میں صرف امریکا میں شادی کی شرح میں 66فی صد کمی آئی۔ 52فی صد بچے اکیلی ماں کے ساتھ رہ رہے ہیں ان کے باپ کا کوئی معلوم نہیں۔ دوتہائی امریکی آبادی یہ تسلیم کرتی ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں مل کر بھی فیملی بناسکتی ہیں۔ تمام مغربی معاشروں میں ہم جنس جوڑے عام ہوگئے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ظلم ایسے ایسے خوبصورت عنوانات کے ساتھ سامنے آیا کہ ملکی اور قومی زندگی میں کوئی ضابطہ اخلاق ہی باقی نہیں رہا۔ انسانیت نے دو ایسی ہولناک عالمی جنگوں کا سامنا کیا جن میں ہلاک ہونے والے کروڑوں افراد کی تعداد پوری انسانی تاریخ میں جنگوں سے ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی ’’اسلامی ریاست‘‘ میں فرماتے ہیں ’’خداوند عالم کی زمین پر صحیح حکومت اور عدالت صرف وہ ہے جواس قانون کی بنیاد پر قائم ہو جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے بھیجا ہے، اسی کا نام خلافت ہے‘‘۔ پیغمبر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے چنیدہ خاص بندے ہیں۔ رسالت مآب محمدؐ جن کے امام اور خاتم الا نبیاء ہیں۔ آپؐ نے دنیا کو جو طرز حکومت اور طرز ریاست دیا وہ خلافت ہے جو اللہ سبحانٗہ وتعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ جس میں صرف اور صرف اسلامی شریعت کی حکمرانی ہے۔ یہی طرز حکومت اور ریاست انسانیت کی تقدیر اور انسانیت کا مستقبل ہے جو ایک جامع اور کامل نظام ہے۔ دنیا کو اسی طرز سیاست اور ریاست کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داریت کے فرسودہ اور نکمے نظام کے مقابل یہی وہ جدید اور روشن خیال نظام ہے جو انسانوں کے مستقبل کی ضرورت اور امید ہے۔